پٹھانکوٹ کا دہشت گردانہ حملہ
ڈاکٹر سلیم خان
۴ جنوری (۲۰۱۵) کی شام ساڑھے چار بجے دوسری بار یہ خبر آئی کہ سارے دہشت گرد مارے جاچکے ہیں۔ اسی کے ساتھ یہ بھی بتایا گیا کہ بالآخر ۶۰ گھنٹوں کے بعد وہ آپریشن ختم ہوچکا ہے جس میں ۷فوجی جوان اور ۶ دہشت گرد مارے گئے (جس طرح پہلے ۴ کے بجائے ۵ کے مارے جانے دعویٰ کیا گیا تھا اس طرح بعد میں ۶ کی تعداد گھٹ کر ۵ پر آگئی)۔ اس سے دوگھنٹے قبل یعنی ڈھائی بجے ایک اور چونکا دینے والی خبر آئی ۔ پنجاب پولس نے یہ بتایا کہ پنجاب اس نے راجدھانی چندی گڑھ سے متصل موہالی میںمنشیات کے تین اسمگلرس کو گرفتار ک ہےیا جن کے پاس پاکستانی سمِ کارڈس اور پاکستان میں بنی خودکار رائفل و دیگر اسلحہ بھی تھا۔ پولس آفیسر جی پی ایس بھلرّ نے دعویٰ کیا کہ ان کا پٹھانکوٹ کی دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ عام طوراسمگلرس اپنے سرحد پار متعلقین سے رابطہ کرنے کیلئے پاکستانی سم کارڈ استعمال کرتے ہیں۔ یہ اس گروہ کے افراد ہیں جسےپولس پہلے ہی تحلیل کرچکی ہے۔
پٹھانکوٹ ہوائی فوج کے اڈے پر ہونے والا یہ حملہ یقیناً قابلِ مذمت ہے لیکن یہ کئی سلگتے ہوئے سوالوں کو جنم دیتا ہے؟ ذرا سوچئے کہ اگربفرض محال اس گرفتاری کے بجائے مڈ بھیڑ ہوجاتی تو ٹیلی ویژن کے پردے پر ہمیں کیا کچھ دیکھنے کو ملتا اور اخبارات میں ہم کیا پڑھتے۔ سب سے پہلے تو ان بدمعاشوں کی شہریت بدل جاتی اور وہ ہندوستانی سے پاکستانی بن جاتے۔ اس کے بعد ان کے سرحد پار کرنے کی معلومات تفصیلات کے ساتھ نشر ہونے لگتیں ۔ لشکر یا جیش سے ان کا تعلق طشت ازبام ہوجاتا۔ ان کے فون سے جو تفصیلات برآمد ہوتیں اس سے پتہ چل جاتا کہ ان کاکس گروہ سے تعلق ہے اور اس کا سرغنہ کون ہے ؟ یہ بھی معلوم ہوجاتا کہ وہ کہاں حملہ کرنے والے تھے ؟ممکن ہےہندوستان کے اندر ان کے رابطوں کی مکمل تفصیلات مع تصاویر نشر ہوجاتیں اور چند اخبار والے پاکستان میں ان کے اعزہ و اقرباء سے ملاقات کرنے کیلئے پہنچ جاتے لیکن افسوس کہ پولس نے کو انہیں معمولی اسمگلرس بتا کر ٹی وی چینلس کو ایک سنسنی خیز خبر اور عوام کو زبردست تفریح سے محروم کردیا ۔
یہ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ حملے سے۸۰ گھنٹے بعد بھی ایک غیر یقینی صورتحال بنی ہوئی ہے ۔ دہشت گردانہ کارروائی کے اختتام سے متعلق لاکھ اختلاف کے باوجود اس کی ابتداء پر سارے لوگوں کا اتفاق ہے ۔ اس شک نہیں کہ انتہائی بارسوخ ذرائع سے کارروائی کی بھنک انتظامیہ کو ۲۴ گھنٹے پہلے مل چکی تھی ۔ جمعہ یکم جنوری کو ایک حیرت انگیز خبر نے ساری دنیا کو چونکا دیا کہ جموں پٹھانکوٹ روڈ پرایک اعلیٰ پولس آفیسر سلویندر سنگھ کو کچھ نامعلوم افراد نے گاڑی سمیت اغواء کرلیا ۔ جب تک کہ سلویندر کا سراغ نہیں ملا تھا یہ قیاس آرائی کی جارہی تھی کہ یا تو چورانہیں اٹھالے گئے ہیں یا دہشت گردوں کی حرکت ہے۔ گاڑی پر چونکہ نیلی بتی لگی ہوئی تھی اس لئے اس کے غلط استعمال کا اندیشہ بھی ظاہر کیا گیا تھا ۔ اس کے بعد سلویندر پولس کے ہتھے چڑھ گیا اور اس نے بتایا کہ اس کو اغواکاروں نےدوست اور باورچی سمیت کار سے نیچے پھینک دیا۔
سلویندر سنگھ کی کہانی پوری فلمی لگتی ہے ۔ یہ اعلیٰ افسر گورداسپور میں مندر درشن کیلئے جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ حفاظتی دستے کے بجائےزیورات کا تاجر دوست راجیش ورما اور باورچی مدن گوپال ہوتا ہے۔ رات میں سفر کے دوران اس کی گاڑی پر لگی نیلی بتی بند ہوتی ہے۔ دہشت گرد انجانے میں اسے پکڑ لیتے ہیں ۔ اس کی پگڑی سے اس کے ہاتھ پیر باندھ دیتے ہیں اور اس کی گاڑی کو لے کر فرار ہوجاتے ہیں ۔ فرار ہونے سے قبل وہ اسے بغیر کوئی زک پہنچائے گاڑی سے پھینک دیتے ہیں لیکن اس کے دوست اور باورچی کو مارنا پیٹنا نہیں بھولتے۔ اغوا کار اس کا فون لے بھاگتے ہیں اور اس پر آنے والے فون سے انہیں پتہ چلتا ہے کہ یہ کس کی گاڑی ہے۔ وہ اسے مارنے کیلئے واپس آتے ہیں لیکن خواجہ اجمیری کی عقیدت اس کی جان بچا دیتی ہے۔ مدن گپتا کے مطابق جب ایک گھنٹے کی پیدل مسافت طے کرنے کے بعد سلویندر سنگھ ایک پولس اسٹیشن سے اپنے اعلیٰ افسران کو فون کرتا ہے تو وہ اس کو گھر جاکر دوسرے دن دفتر آنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ ایک پولس افسر کی شکایت پر اس کے سینئرس کے اس ردعمل نے تو بالی ووڈ کو بھی شرمندہ کردیاہے؟
مندرجہ بالا معلومات فرضی نہیں ہیں بلکہ سلویندر سنگھ کے بیان کی بنیاد پر پیش کی گئی ہیں ۔ سلویندر سنگھ کے اس بیان پر عام قاری تو درکنار این آئی اے نے بھی یقین نہیں کیا اور ۴ جنوری کو ۶ گھنٹوں تک اس سے تفتیش کی گئی۔ اس کا سرحدی علاقہ میں جانا سب سے پہلا شبہ پیدا کرتا ہے۔ حفاظتی دستے کی غیر موجودگی بھی سارے بیان کو مشکوک بنا دیتی ہے۔ جن دہشت گردوں نے اس سے پہلے والے ٹیکسی ڈرائیور ایکاگر سنگھ کو ہلاک کردیا ان کا سلویندر اس کے ساتھیوں کو زندہ چھوڑ دینا باعثِ حیرت ہے ۔ پولس کار کی مدد سے بڑی آسانی کے ساتھ دہشت گردوں اپنے ہدف سےنصف کلومیٹر تک پہنچ جانا بھی اتفاق نہیں لگتا۔ سلویندر کی جانب سے دی جانے والی وارننگ پر توجہ نہیں دینے کی وجہ بھی کم دلچسپ نہیں ہے۔ اس کو ایک خاتون پولس اہلکار کی دست درازی کی شکایت پر منتقل کیا گیا اس لئے دہشت گردی سے متعلق اس کے شبہ کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ این آئی اے کے مطابق وہ اپنا بیان بدلتا رہا ہے۔
جس وقت اس حیرت انگیز واقعہ کی خبر اخبارات (نیٹ ایڈیشن ) کی زینت بنی اسی کے ساتھ قارئین نے یہ بھی پڑھا کہ وزیراعظم موسمیات کی تبدیلی (کلائمیٹ چینج) جیسے دقیق سائنسی موضوع اپنی تصنیف کردہ کتاب اعلیٰ سرکاری افسران کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں ۔ ایک عام سیاستداں کیلئے کلائمیٹ چینج پر کتاب لکھنا تو درکنا اس کے اسرارورموز کا سمجھنا بھی مشکل ہے۔ میں خود ۳۰ سال سے ماحولیات کی دنیا میں کام کرنے کے باوجود اس کے متعلق بہت سارے پہلو نہیں سمجھ پایا ہوں لیکن پھر میں ایسا وزیراعظم بھی تو نہیں ہوں جو صوبائی انتخابات میں تقریریں کرتا پھرتا ہو اور دنیا بھر کے دوروں سے جسے فرصت نہ ہو۔ اس دوران جومہا مانو شاعری بھی کرتا ہے اپنے کرم فرماوں پر کتابیں بھی لکھتا ہے ۔ اس کیلئے پنجاب کے ان معمولی واقعات پر توجہ دینا کس قدر دشوار ہے؟
سنیچر کی صبح پٹھانکوٹ فوجی چھاونی پر حملہ ہوگیا ۔ جس وزیراعظم نے نیپال کے وزیراعظم کو یہ اطلاع دی تھی کہ ان کے ملک میں زبردست زلزلہ آیا ہے اسے یقیناً اپنے ملک رونما ہونے والی اس سنگین واردات کی خبر مل گئی ہوگی ایسے میں اسے چاہئے تھا کہ پنجاب کا رخ کرتا ۔اگر وہاں جانے کی جرأت نہیں تھی تو کم از کم دہلی میں بیٹھ کر اس کی کمان سنبھالتا لیکن وہ تو شمال کے بجائے جنوب میں میسور چلا گیا ؟ وزیراعظم تو دور کسی مرکزی وزیر نے پٹھانکوٹ جانے کا حوصلہ نہیں دکھایا ۔ حملے کے چار دن بعد وزیردفاع منوہر پاریکر کو خیال آیا کہ انہیں ہوائی فوج کی چھاونی میں جاکر اپنے فوجیوں کی خیر خبر لینی چاہئے۔ گرداسپور کے حملے کے وقت بھی یہی ہواتھا کہ وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ کو اسی دن بی ایس ایف کے جلسے میں شریک ہونے کیلئے بھوپال جانا تھا ۔ اس اہم واردات کے باوجود وزیر داخلہ نے اپنے دورے کو ملتوی کرنا ضروری نہیں سمجھا تھا۔
ہمارے فوجی جس وقت اپنی جان کا نذرانہ پیش کررہے تھے اور قوم دم بخود ٹیلی ویژن پر ان روح فرساں مناظر کو دیکھ رہی تھی ملک کا وزیراعظم میسور کی حسین وادیوں میں قدم رنجا فرما رہا تھا۔ ۔ پہلے تو وزیراعظم نے گنپتی سچدانند آشرم میں ایک دواخانے کا افتتاح کیا اور پھر للیتا پیلس ہوٹل میں سکون کی نیند سوگئے ۔ دوسرے دن ستورّ مٹھ میں کی صد سالہ تقریبات میں شرکت فرماکر بھکتوں سے خطاب کیا اور سالانہ سائنس کانگریس کا افتتاح کرنے کیلئے مانسگنگوتری یونیورسٹی کے کیمپس میں چلےگئے ۔اس کے بعد بنگلورو سے۱۰۰ کلومیٹر دورگنٹور میں ہندوستان ائیرونوٹیکلس کے نئے کارخانےکا سنگ بنیاد رکھا اور پھر شام میں بنگلور و کے اندر پانچ روزہ یوگا کی عالمی کانفرنس کا افتتاح کرکے دہلی لوٹ آئے ۔
وزیراعظم جس وقت ان تقریبات میں تقاریر فرما رہے تھے بنگلورو میں مقیم قومی حفاظتی دستے کمانڈو۳۵ سالہ لیفٹنٹ کرنل نرنجن کمار نے پٹھانکوٹ میں اپنی جان وطن عزیز پر قربان کردی ۔ وزیراعظم کے دل میں بنگلوروکے نادر بھی یہ خیال نہیں آیا کہ نرنجن کے اہل خانہ کی تعزیت کی جائے۔ یاد رہے کہ یہ وہی نریندر مودی ہیں جو ۲۶ نومبر کے تاج حملے کے وقت احمدآباد سے سیدھے ممبئی جاکر اس میں مارے جانے والے ہیمنت کرکرے کے گھر بھی پہنچ گئے تھے ۔ (یہ اور بات ہے کہ ان کی اہلیہ نے گجرات کے وزیراعلیٰ سے ملاقات کرنے سے انکار کردیا تھا ) ۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب ایک وزیراعلیٰ کو وزیراعظم بننا تھا لیکن اب اس کی مطلق ضرورت نہیں ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وزیراعظم نے سنیچر کی شام سے اتوار کی شام تک جن سرگرمیوں میں اپنا قیمتی وقت صرف کیا وہ ضروری تھیں اور انہیں اس میں کم از کم معمولی سی تبدیلی کرکےلیفٹنٹ کرنل نرنجن کے گھر نہیں جانا چاہئے تھا ؟ کیا یہ تبدیلی کابل سے براہِ راست دہلی آنے بجائے لاہور سے ہوتے ہوئے آنے سے زیادہ مشکل تھی؟
دہلی آنے کے بعد وزیراعظم نے بجا طور پرایک اعلیٰ سطحی نشست کی صدارت کی جس میں قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول تو موجود تھے لیکن وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ ندارد تھے۔ اس میٹنگ میں وزارت خارجہ کے سکریٹری ایس جئے شنکر کو بھی بلاگیا تھا مگر وزیرخارجہ سشما سوراج غائب تھیں۔ ان اہلکاروں کے علاوہ دو غیر منتخبہ وفادر وزراء منوہر پریکر اور ارون جیٹلی ضرور موجود تھے ۔ اس اہم نشست میں وزیردفاع کی موجودگی تو قابلِ فہم ہے لیکن وزیرخزانہ کا کیا کام ؟ بعد میں پتہ چلا چونکہ دوسرے دن سے حکومت کا دفاع کرنے کی ذمہ داری ارون جیٹلی کو سونپنی تھی اس لئے انہیں زحمت دی گئی ۔ اس نازک گھڑی میں بھی قومی سلامتی کے براہِ راست ذمہ دار وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ اور جس وزارت خارجہ کے کام کاج پریہ حملہ سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والا ہے اس کی غیر حاضری شدید باہمی عدم اعتماد کی فضا کا پتہ دیتی ہے۔
وزارتِ داخلہ گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے پاکستانی ایجنٹوں کو ملک کے کونے کونے میں تلاش کرتا پھر رہا ہے اور اس نے آئی ایس آئی کیلئے کام کرنے والے۱۴ جاسوسوں کو گرفتار کرنے کا دعویٰ بھی کیا جس میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل ہیں بلکہ فوجی بھی ہیں ۔ اس طرح گویا پاکستان کے خلاف ماحول گرما رہا تھا کہ مودی جی نےپاکستان کا اچانک دورہ کرکے ہوا کا رخ تبدیل کردیا لیکن ابھی خوشگوار برف باری رکی بھی نہیں تھی کہ آسمان سے شعلے برسنے لگے اور دیکھتے دیکھتے سارے کئے دھرے پر پانی پھر گیا۔ ہمارے ذرائع ابلاغ کی سہل پسندی کا یہ عالم ہے کہ جیسے ہی کوئی دہشت گردی کا واقعہ رونما ہوتا ہے وہ فوراً بلا کسی تحقیق و تفتیش اس کے تانے بانے پاکستانی سیاستداں ،مذہبی رہنما، فوجی سربراہ ، آئی ایس آئی، طالبان ، القائدہ،جیش اور لشکر سے جوڑ دیتا ہے لیکن بقول سابق وزیراعلیٰ جموں کشمیر عمر عبداللہ ہم لوگ ماضی کے تجربات سے کوئی سبق نہیں سیکھتے۔ اس صورتحال پر طنز کرتے ہوئےایک پاکستانی سفارتکار نے دہلی کے اندر کہا تھا کہ آپ لوگ تو موسم کی خرابی کیلئے بھی آئی ایس آئی کو موردِ الزام ٹھہرا دیتے ہیں۔
اس حملے کی بنیادی وجوہات میں نہ صرف ایک دن پہلے سے عملدرآمد ہونے والے منصوبے کی مجرمانہ چشم پوشی بلکہ ۱۶ ماہ قبل رچی جانے والی سازش کو نظر انداز کرنا بھی شامل ہے۔ پولس نے اس چھاونی کی معلومات پاکستان تک پہنچانے کے الزام میں ۳۰ اگست ۲۰۱۴ کو جودھپور کے رہنے والے فوجی سنیل کمار کو گرفتار کیا تھا ۔ قومی سلامتی سے متعلق اس سنگین معاملے کو اس قدر ہلکا سمجھا گیا کہ پولس وقت پر اس کا چالان تک جمع نہیں کراسکی اور اس کو ضمانت مل گئی۔ یہ اسی زمانے کی بات ہے جب انتظامیہ نے یعقوب میمن کو تختۂ دار پر پہنچانے کی خاطر آدھی رات میں عدالتِ عالیہ کے دروازے پر دستک دی تھی۔ حسن اتفاق یہ ہے راجستھان اور مہاراشٹر دونوں ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت تھی۔ اگر سنیل کمار کا نام مسلمانوں جیسا ہوتا تو ممکن ہے اسے سنجیدگی سے لیا جاتا۔
افغانستان چند اکاّ دکاّ واقعات سے قطع نظر ایک عرصے سے ہندوستان کیلئے محفوظ ملک تھا لیکن وزیراعظم کے کامیاب دورے کا اثر یہ ہوا کہ مزار شریف میں ہندوستانی سفارتخانے پر حملہ کے بعد جلال آباد میں بھی ہوگیا اس طرح گویا پٹھان کوٹ سے لے کر افغانستان تک عدم تحفظ کا ماحول بن گیا۔ سنگھ پریوار کے پاس اس کی صورتحال کے تین حل ہیں ۔ اول تو راضی خوشی سے یا زور زبردستی سے اکھنڈ بھارت بنا کر پاکستان ، افغانستان اور بنگلہ دیش کو ہندوستان میں شامل کرلیا جائے اور جب یہ ہوجائے تو بیچارے سری لنکا، نیپال اور برما کی کیا بساط وہ اپنے آپ چلے آئیں گے نیزاکھنڈ بھارت کے سارے باشندوں کو ثقافتی ہندو قرار دے دیا جائے لیکن اگر اس کے بعد بھی اس طرح کی واردات رونما ہوجائے تو یہ بیچارے اس کاالزام کس پر لگائیں گے اس لئے کہ نہ مسلمان موجود ہوگا اور نہ پاکستان ؟
ایک حل یہ بھی سجھایا جاتا تھا کہ پاکستان میں موجود دہشت گردی کے اڈوں کو بمباری کرکے تباہ کردیا جائے لیکن پٹھانکوٹ میں کارروائی کی طوالت کا جواز یہ پیش کیا جارہا ہے کہ کم از کم جانیں ضائع ہوں ۔ مذکورہ بمباری اس کا احتمال کیسے ہو سکےگا؟ اس سوال کا جواب تو امریکہ کے پاس بھی نہیں ہے۔ گزشتہ سال سنگھ پریوار کے کئی رہنماوں نے اپنے مخالفین کو پاکستان چلے جانے کا مشورہ دیا تھا ۔ ان کی اس درخواست پر ہندوستان میں صرف وزیراعظم نے عمل کیا اور وہ اچانک پاکستان کا دورہ کرکے چلے آئے لیکن ان کی اتباع میں پاکستانی دہشت گرد بن بلائے ہندوستان کی جانب نکل کھڑے ہوئے۔ اس آنے جانے کا جو نتیجہ نکلا اسے ساری دنیا دیکھ رہی ہے کہ تین مرتبہ مہم کے خاتمے دعویٰ کے باوجود یہ تحریر جاری ہے اور گولی باری کی چھٹ پٹ آوازیں سنائی دے رہی ہیں ۔ دہشت گردی پر قابو پانے کیلئے پاکستان پاکستان کو سبق سکھانے کا راگ الاپنے والوں کی زبان اس پر اس سے تعاون کے نغمےسن کر سیتارام یچوری جیسا رہنما حیرت سے سوال کرتا ہے کہ ۵۶ انچ والی سرکار کو یہ کیا ہوگیا؟