پیار کا پل

شازیہ عندلیب

پیار کے پل تعمیر کر کے زندگی خوشگوار بنائیں۔
اسے ہمیشہ سے بڑی آپا سے کچھ خوف اور جھجک سی محسوس کرتی تھی۔وہ تھیں بھی بہت با رعب ۔گو کہ وہ بہت خوش لباس تھیں اور بڑی بہو ہونے کی وجہ سے ایک حد تک گھر کی لاڈلی بہو بھی تھیں۔ وہ رشتے میں اسکی فسٹ کزن تھیں۔ وہ جب بھی نغمانہ کے گھرآ ۤتیں انہوں
نے بہت خوبصورت اور میچنگ ڈریس پہنا ہوتا جسے دیکھ کر نہ صرف نغمی بلکہ اسکے پاس پڑوس کی سہیلیاں بھی رشک کرتیں۔نغمی کی دس سالہ دوست صبائ اکثر کہتی تمہاری یہ آۤنٹی کتنے میچنگ ڈریس پہنتی ہیں دوپٹے سے لے کر جوتے تک ہر شے میچنگ ہوتی ہے۔ ہوتی بھی کیوں نہ وہ ایک دولتمند گھرانے کی بہو تھیں۔گو کہ انکا تعلق ایک متوسط گھرانے سے تھا لیکن یہ ان کی خوش قسمتی تھی کہ انہیں ان کی دولتمند پھپھو نے بچپن میں ہی اپنی بہو بنانے کا ارادہ کر لیا تھا اور اس غرض سے کم عمری میں ہی انکا ہاتھ اپنے بڑے بیٹے کے لیے مانگ لیا تھا۔گو کہ انکا بیٹا شخصیت کے لحاظ سے انکا ہم پلہ نہیں تھا لیکن شادی بیاہ کے معاملے میں لڑکوں کی شخصیت کو نہیں بلکہ انکی مالی حیثیت کو ہی ترجیح دی جاتی ہے خاص طور سے اس وقت جب انتخاب کا حق صرف والدین کے پاس ہو۔ لڑکے لڑکی کی پسند اور حسین جوڑیاں بنانے کا فلمی اور ڈرامائی فیشن تو جدید دور کی دین ہے پرانے زمانے میں یعنی اب سے چالیس برس پہلے پاکستانی معاشرے میں ایسی شادیوں کو بہت معیوب سمجھا جاتا تھا۔اگر کوئی لڑکا لڑکی رواجوں سے بغاوت کر کے پسند کی شادی کرنے میں کامیاب ہو بھی جاتا تھا

اس نہ صرف اس رومانوی جوڑے کو
بلکہ اس کی اولاد تک کو اسکا خمیازہ بھگتنا پڑتا تھا۔مگر ہر خوبصورت لڑکی کے رشتوں کی بھرمار ضرور ہوتی تھی خاندان میں ۔یہی حال رانی آ ۤپی کا بھی تھا۔وہ تھیں بھی اس قدر خوبصورت۔ یہ لمبا سرو جیسا قد بڑی بڑیۤ ۤنکھیں ستواں ناک اور تیکھے نقوش کے ساتھ کھلتی رنگت نے ان ہیں بہت پر کشش بنا دیا تھا۔وہ جب تیار ہوتیں‌انکی شکل مشہور زمانہ فلمسٹار شمیم آرا جیسی لگتی.جو ایک مرتبہ دیکھتا بس دیکھتا ہی رہ جاتا۔ یہ جو کسی خاندان میں‌کوئی بچہ کسی مشہور زمانہ ہیرو یا ہیروئنجیسا پیدا ہوتا ہے اسکی بھی ایک دلچسپ تھیوری ہے جو کہ کئی ہزار افراد میں سے چند افراد پہ ہی لاگو ہوتی ہے.اگر کوئی شخص کسی بھی خاص شخصیت کو بہت ذیادہ دیکھے اور اس سے بڑی حد تک لگائو رکھے اتنا کہ اس کے تصور میں‌اسکی شکلو صورت بس جائے تو اس بات کا بہت ذیادہ چانس ہے کہ اس کے بچوں‌کی شکلو شباہت بھی اس شخصیت جیسی ہو.یہ سب کب اور کیسے ہوتا ہے اس پر ایک خاص لاء ایپلائی ہوتا ہے جو ہر کوئی نہیں‌سمجھ سکتا .اسکی سادہ سی مثال وہ تصاویر ہیں‌جو کوئی بھی ماں اپنے بچے کے دنیا میں آنے سے پہلے دیکھتی ہے تاکہ خوبصورت بچہ دنیا میں آئے.یہ وہ زمانہ تھا جب فلمیں‌اور وہ بھی خاموش فلمیں صرف سنیمہ گھروں‌میں‌لگتی تھیں.اس وقت آج کی طرح‌ہر فلم نیٹ‌فلیکس یا موبائل پہ دیکھنے کی سہولت نہیں‌تھی.اور سنیمہ کی فلم ہر کوئی افورڈ بھی نہیں‌کر سکتا تھا.بلکہ کچھ لوگ صرف فلمی اسٹوریوں‌کے لیے فلمی رسائل اور اخبارات سے ہی استفادہ کرتے تھے.

آپا رانی دس بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں۔اس لیے سگھڑ ہونے کے ساتھ ساتھ با رعب بھی تھیں۔گھر میں کسی بہن بھائی کی مجال نہیں تھی کہ انکی مرضی کے خلاف کوئی کام کرے یا انکی حکم عدولی کرے ۔گویا انکی والدہ کے بعد گھر پہ انکی حکمرانی تھی اسی لیے انہیں سب پیار سے رانی کہا کرتے تھے۔گھر کی بڑی ہونے کی وجہ سے انکی اکثر ممانیاں اور چچیاں ان سے چند برس ہی بڑی تھیں۔اس لیے انکی ان سب کے ساتھ خوب دوستی بھی تھی۔وہ بہت خوش ہو کر اپنی چھوٹی چچی سے ملنے جاتیں۔اور وہ بھی ہمیشہ ان کے لیے نگاہیں فرش راہ کیے رکھتیں۔
وہ ایک پر کشش شخصیت کی مالک جازب نظر لڑکی تھیں جنہیں خاندان کی ہر عورت اپنی بہو بنانا چاہتی تھی۔گو کہ انکا رشتہ طے پا گیا تھا مگر پھر بھی بچھوٹی پھپھو کی شدید خواہش تھی کہ وہ کسی طرح انکے خوبصورت بیٹے شہزادہ شاہان کے ساتھ بیاہی جائیں کیونکہ ان کے خیال میں یہ جوڑی بہت خوبصورت تھی۔مگر بڑی پھپھو ہر گز بھی اس ہیرے جیسی لڑکی کا رشتہ کھونا نہیں چاہتی تھیں۔اس لیے انہوں نے جلد از جلد رانی کو اپنی بہو بنانے کا فیصلہ کر لیا گو کہ ابھی انکے بیٹے کی عمر صرف سترہ برس ہی تھی انہوں نے اسکی شادی کا اعلان کر دیا۔اس طرح کئی برس سے اس خاندانی چقپلش کا خاتمہ ہوا۔اور رانی اس گھر میں دولہن بن کے ۤ گئی رانی کے دل میں کیا تھا؟ کیا وہ بھی بڑی پھپھو کے بیٹے کو پسند کرتی تھی۔اس راز کو کوئی نہیں جانتا تھا سوائے چھوٹی چچی کے۔اگر وہ پسند کرتی بھی تو پھر بھی کیا ہو جاتا ہونا تو وہی تھا جو بڑے چاہتے۔لہٰذا وہ اپنے د کے ارمان دل میں ہی چھپائے پیا دیس سدھار گئیں۔بس یہ ہوا کہ شادی کے بعد ان کے ہنستے مسکراتے چہرے پہ چڑچڑاہٹ نے جگہ بنا لی۔خاندان میں وہ کسی سے دل کی بات نہیں کرتی تھیں سوائے چھوٹی چچی کے۔مگر انہوں نے کبھی ان کے بارے میں زبان نہیں کھولی۔چچی اۤپا سے جتنا پیار کرتی تھیں انکی بیٹی نغمی ان سے اتنا ہی ڈرتی تھی۔سلام دعا سے ذیادہ کبھی گفگتگو نہ کی۔مگر جب وہ بڑی ہوئی اسکی شادی ۤپا کے چھوٹے دیور سے ہو گئی۔مگر اس رشتہ داری سے بھی انکے رویے اور رعب داب میں کوئی فرق نہ اۤیا۔اس کے اور ۤاپا کے درمیان فاصلے قائم رہے۔وقت گزرتا گیا اۤپا سات بچوں کی ماں بن گئیں مگر عجیب بات تھی کہ وہ اۤپا سے جتنا ڈرتی تھی ان کے بچے نغمی چچی سے اتنا ہی پیار کرتے تھے۔اور اکثر اپنے مسائل اپنی چچی سے ڈسکس کیاکرتے تھے۔ وقت بدلا اور آپا کے بیٹے زمانے کے تقاضے پورے کرنے کی خاطر بیرون ملک سیٹل ہو گئے۔چھوٹی چچی تو پہلے سے ہی یورپ میں مقیم تھیں۔وہ بڑی آۤپا کے بیٹوں اور بہوئوں سے ملنےاٹلی گئیں۔یہ ایک بہت خوشگوار تجربہ تھا چچی فوراً انکی بہوئوں سے گھل مل گئیں اور ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا کہ وہ بڑی آپا کے غصے سے کتنا ڈرتی ہیں۔بس وہ دن اس کے خوف کا آخری دن ثابت ہوا کیونکہ اس کے بعد سے بڑی آپا اس کے ساتھ بہت خوشگوار موڈ میں بات کرتیں اور نہائیت شفقت سے پیش آتیں۔انکی بہوئیں تو گویا آپا اور چچی کے درمیان پیار کا پل بن گئیں۔چھوٹی بہو نے بڑے رسان سے اپنی ساس کو فون پہ بتایا کہ چھوٹی چچی نے نہ صرف انہیں یہاں سیٹل ہونے کے لیے رہنمائی دی ہے بلکہ وہ تو بہت صاف دل کی اور خوش مزاج اور محبت کرنے والی ہیں۔مگرآ ۤپ سے یہ شکائیت ہے کہآ ۤپ ان سے پیار نہیں کرتیں۔یہ سن کر بڑی آ ۤپا نے فوراً اپنا رویہ تبدیل کر لیا۔کیونکہ دنیا کی کوئی ماں اپنے بچوں کو پسند کرنے والوں کو کبھی نا پسند نہیں کرتی اور پھر یہ تو انکی لاڈلی بہوئوں کی رائے تھی وہ ان کی بات کو کیوں نہ اہمیت دیتیں۔اس طرح انکی بہوئیں نئی اور پرانی جنریشن کے درمیان ایک پیار کا پل بن گئیں بالکل عمارت کے اس حصے کی طرح جسے پرانی اور نئی عمارت کو ایک پل کی طرحتعمیر کر کے دو عمارتوں‌کو جوڑا جاتا ہے جیسا کہ یورپ کے بڑے شہروں میں یہ بہت رواج ہے۔ایسی عمارتیں کوپن ہیگن،ناروے اور جرمنی میں دیکھی جا سکتی ہیں……..جاری ہے

اپنا تبصرہ لکھیں