کاروبار کیلئے جائیداد ، سمندر پار پاکستانیوں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائیگا

کاروبار کیلئے جائیداد ، سمندر پار پاکستانیوں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائیگا

 ایسے وقت میں جب تحریک انصاف کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ سمندر پار پاکستانی جو نان فائلرز ہیں انہیں پاکستان میں گاڑیاں اور جائیداد خریدنے کی اجازت ہوگی جبکہ دیگر نان فائلرز پر پابندی برقرار رہے گی۔

روزنامہ جنگ کے مطابق وزیراعظم کے ترجمان نے کہا ہے کہ وہ پاکستانی جو کاروبار کیلئے جائیداد خرید رہے ہیں انہیں بھی ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا۔ وزیراعظم کے خصوصی معاون برائے میڈیا افتخار درانی نے دی نیوز کو بتایا کہ اس حوالے سے تمام بزنس لین دین پر ایف بی آر نظر رکھے گی اگر سمندر پار پاکستانی یا وہ جن کے پاس این آئی سی او پی ہے، تجارتی مقاصد کی خاطر جائیداد یا گاڑی خریدیں گے تو انہیں بھی ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا۔ ایک سوال کے جواب میں کہ کچھ پاکستانی جو یہاں مقیم ہیں لیکن تجارتی مقصد کی خاطر این آئی سی او پی بنا لیتے ہیں، افتخار درانی کا کہنا تھا کہ ایسے تمام لین دین پر ایف بی آر اور ایف آئی اے نظر رکھیں گے اور جو کوئی بھی اس طرح کاروبار کرے گا اسے ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا۔درانی نےکہا کہ سمدر پار پاکستان اگر ملک آنا اور جائیداد خریدنا چاہیں تو انہیں خوش آمدید کہا جائیگا۔ انہوں نے کہا کہ سمدر پار پاکستانیوں کو جائیداد اور گاڑیاں خریدنے کی اجازت ہے لیکن اگر ان میں سے کوئی جائیداد کا کاروبار کرے گا، اسے بالاخر ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا۔

تاہم یہ نکتہ حکومتی پلان میں واضح نہیں کہ ٹیکس سے استثنیٰ یہاں مقیم نان فائلرز کو دیا جائیگا یا سمندر پار پاکستانیوں کو۔ ٹیکس قوانین کے تحت جو آمد نی بیرون ملک کمائی جاتی ہے اسے ٹیکس سے استثننیٰ حاصل ہے۔ سمندر پار پاکستانیوں کی کمائی پر ٹیکس لگانے سے متعلق نہ ہی کوئی بحث ہے نہ سوال کیوںکہ انکی جانب سے جو پیسہ ترسیلات زر کی صورت میں پاکستان بھیجا جاتا ہے وہ ملکی معیشت میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ سمندر پار پاکستانی بینکنگ چینل کے ذریعے پیسہ وطن بھیج سکتے ہیں اور اگر وہ نان فائلرز ہیں تب بھی جائیداد اور گاڑی خرید سکتے ہیں۔ یہ معاملہ ان سمندر پار پاکستانیوں سے متعلق ہے جو ایک سے زائد جائیداد یا گاڑی کاروبار کی غرض سے حاصل کرتے ہیں۔ دوسرا معاملہ ان پاکستانیوں سے متعلق ہے جو یہیں رہتے ہوئے این آئی سی او پی حاصل کر کے کاروبار کرنا اور ٹیکس سے استثنیٰ لینا چاہیں گے۔ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ ایسے این آئی سی او پی کے حامل افراد کاروبار کی غرض سے مستقل بیرون ملک سفر کرتے ہیں اور اسی کارڈ کی بنیاد پر ٹیکس سے استثنیٰ حاصل کرتے ہیں۔
ٹیکس ماہرین کے مطابق ایف بی آر کے آن لائن فائلنگ سسٹم میں سمندر پار پا کستا نیو ں کا بھی ایک صفحہ ہے جہاں وہ اپنی آمدنی اور ٹیکس کو صفر لکھ کر بھی فائلر بن سکتے ہیں۔ اس صفحے کے ذریعے وہ کمائی گئی یا پاکستان بھیجی گئی رقم پر بغیر کوئی ٹیکس ادا کئے فائلر بن سکتے ہیں ۔ اب جبکہ سمندر پر پاکستانیوں پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا جارہا اور ہر کوئی انہیں سہولت فراہم کرنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ کیوں تحریک انصاف کی حکومت سمندر پار پاکستانیوں کو ٹیکس رجسٹریشن سسٹم میں شامل کرنے پر ہچکچاہٹ کا شکار ہے جبکہ انہیں صرف اپنے سالانہ گوشوارے جمع کرا کے فائلر بن جانا ہے۔ اگر وہ سمندر پار پاکستانی جو ملک میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں اپنے سالانہ گوشوارے جمع کرانا شروع کردیں تو ایف بی آر کے پاس انکی جائیداوں کا ریکارڈ آجائیگا اور جب وہ جائیداد کی خریدو فروخت کا کاروبار شروع کریں گے، ٹیکس کی ادائیگی بھی شروع کردیں گے۔ سمندر پار پاکستانیوں کے ساتھ بات چیت سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں جائیداد کی خریدو فروخت اور اس پر واجب الادا ٹیکس کی ادائیگی اور فائلر بننے میں کوئی مسئلہ نہیں کیوںکہ اس سے انہیں متعدد حوالوں سے مدد ملے گی۔ معاملہ جائیداور اور دیگر کاروبار سے وابسطہ ان بڑی شخصیات کو اس استثنٰی کی مدد سے سہولت فراہم کرنے کا ہے جو اس رعایت سے فائدہ اٹھا خود کو سمندر پار پاکستانی ظاہر کر کے، یا این آئی سی او پی کارڈ ہولڈر ظاہر کر کے ٹیکس نیٹ سے باہر رہنا چاہتے ہیں کہ وہ 183دن سے کم پاکستان میں قیام کرتے ہیں۔
اپنا تبصرہ لکھیں