کارٹون ۔۔۔کارٹون ۔۔۔کارٹون

انتخاب عابدہ
لندن

پنجاب یونیورسٹی کی ایک طالبہ

اپنے نوٹس لینے دوسرے کمرے میں جاتی ہے ۔

دروازہ کھولتی اور دھک سے رہ جاتی ہے ،

قدم وہیں گڑ جاتے ہیں ، آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں ۔

ننھی بچی ’’ فاطمہ ایوب ‘‘

ہیٹر کے آگے خشوع خضوع سے بیٹھی ہے ۔

دونوں ہاتھوں سے رام رام کر رہی ہے ۔

جی ہاں وہ آگ کی پوجا کر رہی ہے ۔

فاطمہ !!!

فرح کی آواز گہرے کنوے سے برآمد ہوتی ہے ۔

یہ فرح کی اوپر کی منزل میں رہنے والے مالک مکان کی بیٹی ہے ۔

وہ ہولے سے پیچھے دیکھتی ہے ۔

یہ کیا کر رہی ہو ؟

آپی !

وہ بھی تو ایسا ہی کرتا ہے نا

ہاں وہ فلاں کارٹونز میں فلاں بھی تو ایسا ہی کرتا ہے نا !

اور اس کا دل چاھتا ہے لوگوں کو چیخ چیخ کر کہہ دے ، کہ یا بچوں کو مسلمان بنا لیں ، یا بچوں کو کارٹونز دکھا لیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے یہاں بہت نامی گرامی تعلیمی ادارے ھیں

دین دار لوگ بھی ان کو پریفر کرتے ہیں کہ ان کا ماحول نسبتا بہتر ہے ۔

یہاں کا واقعہ ہے ۔

ایک ننھی بچی رات کو سونے سے قبل ’’کارٹون ‘‘ ہیرو کو ’’خدا ئی مقام ‘‘ دے رہی ہے اور اپنے ’’بابا ‘‘ سے اس کی شان بیان کررہی ہے ۔

انتہائی ملحدانہ نظریہ !الحاد کی کی بدبو میں لپٹا جملہ اس معصوم بچی کی زبان سے وارد ہوتا ہے ۔ اور بابا کے تن بدن میں آگ لگا دیتا ہے ۔

بابا دینی مزاج کے حامل ہیں ۔۔

ان کی رات کروٹیں بدلتے گزرتی ہے ۔

اگلے دن

فورا اس تعلیمی ادارے کا رخ کرتے ہیں ۔

وہاں جا کر معلوم ہوتا ہے یہاں باقاعدہ ’’ کارٹون کلاس ‘‘ ہوتی ہے ۔

اسی کا اثر ہے کہ بچی

اپنے بنانے والے کریم رب کو نہیں جانتی ،

اپنے کارٹونی ہیرو کو خدامانتی ہے جو سب کچھ کر لیتا ہے ، جو ہر چیز پر قدرت رکھتا دکھائی دیتا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں نے چند دن قبل کلاس میں اس حوالے سے بات کی ،

ایک خاتوں کہنے لگیں ، کہ کبھی ذہن میں ہی نہ آیا تھا

کہ بچوں کو اس سے بھی روکنا چاھئے ۔

یہ بھی کوئی روکنے ٹوکنے والی بات ہے !

کیا ہر کارٹون میں میوزک نہیں ہوتا ؟

کیا وہ ننھے معصوموں کے شفاف دلوں میں ’’نفاق‘‘ نہیں بھرتے ؟

کہ رسول اللہ نے فرمایا

کہ غنا(گانا وغیرہ )

نفاق اگاتا ہے ۔

کیا کارٹونز میں بے حیائی و عدم لباسی کا ایک سیلاب نہیں ہوتا ؟

کیا وہ ایسے حیا باختہ مناظر نہیں ہوتے جو ایک شریف انسان کی بساط سے باہر ہوتے ہیں۔

کیا یہ بچوں کو بے حیائی کا عادی ، نہیں بنا رہے ؟

کہ اکثر بچے کہتے ہیں

کارٹونز تو گندے نہیں ہوتے !

دھیاں دلایا جائے تو کہتے ہیں

ہاں ہاں ۔ لیکن فلاں گندے نہیں !

اور وہ ’’فلاں‘‘ بھی بہت خراب ہوتے ہیں ۔

کیا کارٹونز میں بدتمیزی ، ماؤں سے چیخ و پکار کی ادائیں نہیں سکھائی جاتیں ؟

کیا بچے اونچی بولنا، دھاڑ دھاڑ کربولنا ایک فیشن نہیں سمجھتے ؟ کہ ان کے ہیرو بھی ایسے ہی ہوتے ہیں !

کیا یہ کارٹونز بچوں سے ان کے اصل ہیرو نہیں چھین لیتے ؟

وہ بچوں کے نبی کریمﷺ ، وہ ننھے صحابہ وہ ننھے کمانڈوز !

امت محمد ی کے یہ ہیرو ہیں

اور کارٹونز

کبھی ڈورے مون کو ہیرو بنائے گیں کبھی شن چین کو !

کیا ڈورے مون جادو کا سبق نہیں دیتے ؟

کیا جادو کفر نہیں ہے ؟

کیا کارٹونز ’’ہیرو‘‘

کو خدا بنانے پر تلے نظر نہیں آتے ؟

کیا کارٹونز غیر حقیقت پسندانہ رویہ نہیں سکھاتے ؟

کیا شن چین یہ نہیں سکھلاتا کہ ماں سے بدتمیزی کرو ، ناراض رہو ، اس بات پر کہ وہ تمہیں ’’ڈھیروں ڈھیر ‘‘ اور ’’من چاہی ‘‘ شاپنگ نہیں کرواتی یا کرواسکتی ؟

اسلام کی پاکباز بیٹیوں کو کارٹونز یہ نہیں سکھلاتے ،

کہ شن چین کی ماں کی مانند ہو تو ایسی نہ رہو ۔

اس کی ہمسائی جو بے حیائی کا مرقع ہے ، اس کی تلقین پر شن چین کی ماں کی مانند ہمسائی کی مان لو ۔

ویسے ہی حیا کے ج…

اپنا تبصرہ لکھیں