وہ بھٹو یا شریف خاندان کا نواسہ نہیں تھا،وہ تو جناح خاندان کا نواسہ تھا،جس کی اِس ملک میں کوئی سیاسی وراثت موجود ہے اور نہ اربوں کھربوں کے اثاثے،اِس لئے وہ ساری زندگی کسمپرسی کے عالم میں گذار کر اسی کسمپرسی کی حالت میں دنیا سے رخصت ہو گیا۔ بے کسی اور بے بسی کا عالم یہ تھا کہ اسے کفن بھی ایک خیراتی ادارے ”چھیپا“ نے دیا۔رہی بات یہ کہ اس کی نماز جنازہ میں کوئی حکومتی یا سیاسی شخصیت شریک نہیں ہوئی تو اس میں کون سی انہونی بات ہے۔قائداعظمؒ کے افکار و اقوال سے تو پہلے ہی ہماری سیاسی اشرافیہ قطع تعلق کر چکی ہے۔اب ان کے نواسے کے لئے کیوں وقت نکالتی، ہاں اس نواسے کی کوئی سیاسی جماعت ہوتی،اس نے لوٹ مار کر کے اربوں روپے اکٹھے کئے ہوتے۔ کروفر سے زندگی گزاری ہوتی۔تو سب جوق در جوق چلے آتے۔
روزنامہ پاکستان میں نسیم شاہد نے لکھا کہ صدر، وزیراعظم اور تمام عمال حکومت کی طرف سے تعزیتی بیانات جاری ہوتے، صرف قائداعظمؒ کا مفلس، غریب اور بے خانماں نواسہ ہونا تو کوئی ایسا بڑا حوالہ نہیں تھا کہ جس پر اتنی توجہ دی جاتی،ہاں اس کے جنازے میں عام لوگ بڑی تعداد میں شریک ہوئے،کیونکہ یہ پاکستان کے عام لوگ ہی ہیں،جو اپنے دِل میں قائداعظمؒ کو زندہ رکھے ہوئے ہیں،جو اس بات پرشکر اد کرتے نہیں تھکتے کہ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے انہیں پیارا پاکستان دیا،جو آج بھی اپنے بانی کے احسان تلے دبے ہوئے ہیں اور جنہوں نے آج بھی یہ امید لگا رکھی ہے کہ ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب پاکستان قائداعظمؒ کے خوابوں کی حقیقی تعبیر بن جائے گا۔
جی ہاں مَیں ذکر کر رہا ہوں، قائداعظمؒ کے نواسے محمد اسلم جناح کی رحلت کا، جو دو روز پہلے ہوئی۔ کراچی میں انہیں سپردخاک کر دیا گیا،مَیں سمجھتا ہوں ہماری اشرافیہ نے اس پر سکھ کا سانس لیا ہو گا کہ قائداعظمؒ کی یہ نشانی بالآخر منوں مٹی تلے دب گئی،وگرنہ جب بھی محمد اسلم جناح کی خبریں سامنے آتی تھیں کہ وہ کس طرح ایک بے چارگی کی زندگی گزار رہے ہیں تو اشرافیہ کی بے حسی اور اس ملک کو شیر مادر سمجھ کر ہڑپ کرنے کی داستانیں زیادہ شدت سے نمایاں ہو جاتی تھیں۔ ایک طرف قائداعظمؒ کا در در پھرتا وارث اور دوسری طرف قائد کے نام کی کھٹی کھانے والا ایک اقلیتی گروہ، ناقدری کی جو شرمناک روائیتیں ہم نے قائم کی ہیں،شاید ہی دنیا میں کہیں دیکھنے کو ملیں،ہم بانی ءپاکستان کے خاندان کو ایک چھوٹی سی چھت بھی نہ دے سکے۔ یہاں کیسے کیسے لوگوں کے وظیفے مقرر ہیں، حالانکہ وہ دھرتی پر بوجھ ہیں اوردوسری طرف یہ قائداعظم کا نواسہ تھا، جو کراچی کی سڑکوں پر دھکے کھاتا رہا، ٹوٹی پھوٹی پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرتا اور بڑی مشکل سے اتنے پیسے کماتا کہ اپنی اہلیہ اور بیٹی کا پیٹ پال سکے۔
وہ آج کی اشرافیہ کا نواسہ ہوتا تو لڑکپن ہی میں ارب پتی بن جاتا،مگر وہ تو قائداعظمؒ کا نواسہ تھا،جنہوں نے پاکستان بنایا،لیکن اپنے اور خاندان کے لئے کچھ نہیں بنایا،چاہتے تو آدھا پاکستان اپنے نام کرا سکتے تھے،اسی کراچی میں ان کے بڑے جناح ہاؤس ہوتے اور بلاول ہاؤس جیسے بنگلے ان کے سامنے تین مرلے کا مکان نظر آتے،مگر انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا،وہ جناح فیملی کو بھول گئے، انہیں صرف پاکستان یاد رہا یا پاکستانی قوم کے دکھ درد،سو ایسے میں قائداعظمؒ قیام پاکستان کے صرف ایک سال بعد جب دنیا سے رخصت ہوئے تو ان کے ورثاءآدھے پاکستان تو کیا آدھ مرلہ زمین کے مالک بھی نہیں تھے۔
مگر صاحبو!کسی ملک کا بانی تو ایک بہت بڑا اور انمول حوالہ ہوتا ہے،اس سے منسلک تو ہر شے کی قدر کی جانی چاہئے۔خاص طور پر اس کے عزیز و اقارب کو تو سر آنکھوں پر بٹھانا چاہئے تاکہ انہیں کسی قسم کی محرومی کا احساس نہ ہو، لیکن یہاں کیا ہوا۔ بانی ءپاکستان کا ایک نواسہ برسوں سے کراچی کی سڑکوں پر جناح کیپ اور لباس پہن کر، پاکستانی پرچم اٹھا کر ہماری بے حسی کا مذاق اڑاتا رہا،کئی حکومتیں بدلیں، کئی نئے حکمران آئے، کراچی میں اربوں کھربوں روپے کی جائیدادیں لوٹی گئیں، چائنا کٹنگ کے ذریعے پبلک مقامات بھی بیچ ڈالے گئے،مگر کسی کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ قائداعظمؒ کی اس نشانی کو ڈھنگ کا ایک گھر ہی دیدے۔اس کے روزگار یا وظیفے کا کوئی بندوبست ہی کر دے، نجانے کتنی بار اخبارات نے محمد اسلم جناح کے بارے میں خبریں اور فیچر شائع کئے۔یہ نہیں کہ کسی کو ان کے بارے میں خبر نہ تھی،سب جانتے تھے، سندھ کے وزیراعلیٰ یا گورنر کو بھی یقینا ان کی خبر ہو گی،لیکن کسی نے بھی یہ کو شش نہیں کی کہ انہیں ایک آسودہ زندگی دے سکے۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ جب وہ کسی بازار میں جاتے تو لوگ انہیں پہچان لیتے، قائداعظمؒ کی نشاندی سمجھ کر ان سے اظہارِ محبت کرتے،ان کے ساتھ تصویریں بنواتے،ان کے اکثر انٹرویو دکھی کر دینے والے ہوتے،مگر ملک پر مسلط اشرافیہ کا دِل نہ پسیجتا،اپنے لئے تاحیات منظور کرانے والے عوامی نمائندوں کو کبھی اس نکتے پر سوچنے کی توفیق نہ ہوئی کہ بائیس کروڑ انسانوں کے اس ملک میں بانی ءپاکستان کا ایک نواسہ بقید ِ حیات ہے،کچھ اس کے لئے بھی کیا جائے۔ کم از کم جب تک وہ زندہ ہے اس کی اور اہل خانہ کی زندگی ہی آسان بنا دی جائے،لیکن ایسی مراعات حاصل کرنے کے لئے بااثر ہونا ضروری ہے۔آج کے زمانے میں قائداعظمؒ کا نواسہ ہونا کوئی بااثر حیثیت نہیں دِلا سکتا۔
شکر ہے رینجرز اور پولیس نے کچھ لاج رکھ لی۔ محمد اسلم جناح کی تدفین کے وقت مرحوم کو سلامی پیش کی،وگرنہ تو ایسا لگتا کہ جیسے کوئی لاوارث دنیا سے رخصت ہو گیا ہو،حالانکہ وہ بانی ءپاکستان کا وارث تھا۔اب یہ توقع رکھنا کہ گورنر سندھ یا وزیراعلیٰ اس کے جنازے میں شریک ہوتے ایک احمقانہ بات ہے،ہاں کوئی آج کا سیاسی رہنما وفات پا گیا ہوتا،کوئی بااثر شخص دنیا سے گزر گیا ہوتا تو تمام احتیاطی تدابیر کو بالائے طاق رکھ کر یہ حاکمانِ وقت اس کے جنازے میں شریک ہوتے۔71سال کی عمر میں اسلم جناح اس عالم میں رخصت ہوئے کہ تدفین کی ذمہ داری بھی ایک خیراتی ادارے ”چھیپا“ کو اٹھانی پڑی، سرکاری اعزاز تو دور کی بات ہے۔قائداعظمؒ کے سامنے شرمندہ تو ہم قدم قدم پر ہوتے ہیں،کیونکہ جس مقصد کے لئے انہوں نے پاکستان حاصل کیا تھا،ہم اس کی طرف ایک قدم بھی نہیں چلے،ہم نے اسے ناانصافی، ظلم، لوٹ مار اور بربریت کی آماج گاہ بنا رکھا ہے۔