گل بہار بانو
زندگی ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ بلیغ رحمان جن کا تعلق اپنی سوسائٹی کے کے امیر ترین خاندان سے تھا۔عمرے کی سعادت حاصل کرنے کے لیے مدینہ شریف گئے۔وہاں انہوں نے ایک آدمی دیکھا ۔جو” عربی” تھا. اس کا ایک ہاتھ کٹا ہوا تھا۔ اس عربی شخص کو دیکھ کر بلیغ رحمان صاحب نے سوچا کہ یہ چور ہوگا۔کیونکہ انہوں نے سن رکھا تھا کہ سعودی قانون ہے ۔کہ وہاں کوئی چوری کرتا تو اس کے ہاتھ کاٹ دیے جاتے۔اب وہ پہلے دو بہت ہچکچائے اس سے ملنے سے پھر جب وہ اس سے ملے ۔مصا فحہ وغیرہ کیا ۔ جب تھوڑی گفتگو ہوئی تو اس” عربی “شخص نے بتایا ،کہ وہ مدینہ کے شہر ‘قاہرہ’ کا باسی ہے۔ وہ کھیتی باغی کرتا ہے ۔زمینیں اس کی اپنی ہیں ۔اور بھاری مقدار میں پیداوار مدینے کے بازار میں فروخت ہوتی ہے۔ یہ سن کر بلیغ رحمان کو بڑی حیرت ہوئی۔انہوں نے اس شخص سے ہاتھ کٹنے کی وجہ دریافت کی۔ تو اس آدمی نے بتایا کہ وہ 1948ء میں فلسطین کے معاملے میں عربوں اور یہو دیوں کی جو لڑائی ہوئی تھی۔وہ بھی اس میں شامل تھا۔اس کی دائیں بازو میں چار گولیاں لگی ۔جس سے وہ کافی عرصہ ہسپتال میں زیر علاج رہا ۔کافی عرصے تک جب اس کا بازو ٹھیک نہ ہوا تو ڈاکٹروں نے اس کا ہاتھ کاٹ دیا ۔
تا کہ پورا بازو اس سے متاثر نہ ہو۔یہ ایک ایسی مثال ہے ۔جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کن حالات میں انسان اپنے ذہن میں کیسی کیسی رائے قائم کر لیتا ہے۔اس عربی شخص کے ساتھ نہ واقفیت کی وجہ سے بلیع رحمان اسے چور سمجھ رہے تھے ۔اس کے بر عکس وہ ایک تجارت کرنے والا اور ایک سپاہی اور مجاہد تھا۔وہ لوگوں دینے والا تھا نہ کہ لینے والا ۔وہ سماج کا کارآمد فرد تھا نہ کہ بے کار ۔ہر آدمی پر فرض ہے کہ وہ کسی دوسرے ،خص کے بارے میں غلط رائے قائم نہ کرے۔بلکہ پوری تحقیق کرے، تب کسی کے بارے میں کچھ سوچے ۔بغیر علم کے کسی کے بارے میں رائے قائم کرنے کی کبھی جلدی نہ کرے۔تحقیق کئے بغیر کبھی بھی اپنی زبان نہ کھولے ۔اگر کسی کے پاس تحقیق کرنے کا سامان یا وقت نہیں ہے تو اس کے لیے دوسرا طریقہ یہ ہے کہ وہ ایسے معاملات میں چپ رہیں ،نہ کہ ناقص معلومات کی بنا پر دوسرے انسان کی بارے غلط رائے قائم کرے۔اس دنیا میں چپ رہنا بھی اتنا ہی ضروری ہے کہ جتنا بولنا۔۔

Recent Comments