کشکول شکن،پلیز ذرا دھیان سے ۔۔۔

تحریر شازیہ عندلیب
پاکستان میں سونے کے ذخائر دریافت ہونے کی خبر سن کر وہ ایسے خوش ہو رہاتھا، جیسے سونا چنیوٹ میں نہیں اس کے گھر کے لان میں سے نکل آیا ہے۔نہ صرف یہ بلکہ قوم کے حکمرانوں نے کشکول توڑنے کا اعلان بھی کر دیا لگے ہاتھوں۔بس پھر کیا تھا یہ سننا تھا کہ اس پاکستانی محب وطن کی گردن بھی فخر سے تن گئی۔اس نے سوچا کہ اب تو میرے ملک اور میری قوم کی بھی بڑی شان ہو گئی ہے اب تو ہم بھی کسی سے کم نہیں دیکھ لیں گے سب امیر ملکوں کو بس ذرا اسٹیل مل تو لگ لینے دو پھر دیکھنا سب کو کیسے ٹکا ٹکا کے سیدھا کرتے ہیں ہم سب۔اب تو اسکے خوابوں خیالوں میں ہر طرف سونے چاندی کے چمچے کڑچھے،لوہے کی سیخیں تانبے کے اوزار اور دولت کے انبار ہی انبار تھے۔اس نے بڑی خو شی خوشی اپنے عراقی دوست کو یہ خبر سنائی کہ اب ہم کوئی کنگلے نہیں رہے ہمارے ملک میں بھی سونا نکل آیا ہے سونا ۔اچھا اسکا دوست بڑی استہزائیہ سی ہنسی ہنس کے بولا یہ کون سی نئی بات ہے۔کیا اس سے پہلے کبھی نہیں سونا نکلا ۔پاکستان تو شروع سے ہی مختلف قیمتی معدنیات اور پتھروں سے بھرا پڑا ہے مگر یہ مال و زر کبھی اس ملک کی قسمت نہیں بدل سکے۔پاکستان کے ہاتھ جتنی مرضی دولت آ جائے اور جتنا مرضی مال پر یہ رہے گا پھر بھی صدا کنگال کا کنگال۔۔۔
اچھا وہ کیوں محب وطن شہری اپنے ڈولتے دل کو سنبھالتے ہوئے حیرت سے بولا۔وہ اس لیے کہ جب تک اس ملک کے حکمرانوں کی سوچ نہیں بدلے گی ملکی حالات نہیں بدلیں گے۔۔۔۔ملک کا نظام نہیں بدلے گا۔لوگ نہیں بدلیں گے، جھوٹی آن بان اور دکھاوے کی رسمیں نہیں بدلیں گی ۔۔۔یہاں کچھ بھی بدلنے والا نہیں سونا چھوڑ ہیرے بھی نکل آئے جب تک غلط سوچ کے کیڑ ے نہیں نکلیں گے ملک نہیں بدلے گا۔قوموں کی قسمتیں دھن دولت سے نہیںجذبوں اور انکی نیک نیتی اور قوم پرستی سے بدلا کرتی ہے۔ گیت گائیں ہم عالمی طاقتوں کے اور دعوے کریں حب الوطنی کے ،ساتھ دیں شیطان اور اس کے ساتھیوں کا اور توقعات وابستہ کریں اپنے رب سے نہیں یار نہیں ایسے قومیں امیر نہیں ہوتیں۔۔۔۔
وہ تو اور بھی جانے کیا کیا کہہ رہا تھا شائید وہ پاکستان میں سونے کے ذخائر دریافت ہونے پہ خوش نہیں تھا یا پھر پاکستان کو خوشحال نہیں دیکھنا چاہتا تھا ۔۔ سڑیل عراقی۔۔۔ محب وطن نے جل کر سوچا۔اس کے کانوں میں نواز شریف کے الفاظ گونجنے لگے ہم اپنے ملک کا قرض اتار دیں گے ۔۔ہم کشکول توڑ دیں گے۔محب وطن پاکستانی کی آنکھوں کے سامنے ایک بچپن کا منظر گھومنے لگا۔جب گلی محلوں میں عید شب برآت پہ مٹی کی پیالیوں میں جنہیں پنجاب میں ٹھوٹھیاں کہاجاتا ہے کھیر اور حلوے بٹا کرتے تھے۔بچے کھیر کھا کر مٹی کی ٹھوٹھیاں زمین پر پٹخ دیتے تھے پھر خوشی سے تالیاں بجاتے تھے۔مٹی کی ٹھوٹھیوں کی کرچیاں ہر طرف بکھر جاتیں اور کسی نہ کسی کے پائوں کو زخمی بھی کر دیتی تھیں۔اسے ایسا لگا جیسے ہر گلی بازارر و کوچے میں کشکول توڑے جا رہے ہیں۔مٹی کے کشکول۔۔۔۔۔
لوہے کے کشکول۔۔۔۔۔۔ دھڑا دھڑ۔۔۔ڑڑڑ تڑا تڑا تڑ ڑڑڑ۔۔۔ ٹوٹ رہے تھے۔ہر طرف ٹھاہ پٹخ کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ہر جانب طرح طرح کے کشکول ٹوٹنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔سارے عالمی تھیکیدار کشکول شکن تقریب کا یوں نظارہ کر رہے تھے جیسے تقریب عروسی سے پہلے شگناں دی مہندی کی تقریب ہو رہی ہو۔کچھ عالمی ٹھیکیدار اس نظارے سے حواس باختہ ہو رہے تھے۔انہوں نے اپنے سر تھامے ہوئے تھے اور چہروں پہ فکر مندی کے آثار تھے۔سارے عالمی ٹھیکیداروں کو فکریں لگ گئیں کہ لو جی یہ سونے کی چڑیا تو گئی ہاتھ سے۔اس لیے اب تو پڑوسی ملک سے مودی کا بھی فون آیا تو اس نے جانے کیا کیا کھسر پھسر کی کسی کو کان و کان خبر نہ ہوئی تو وڈے عالمی ٹھیکیدار کا سات سمندر پار سے بھی فون آیا ۔کچھ روز پہلے کی بات ہے کہ اسی عالمی ٹھیکیدار نے پڑوس ملک کا دورہ کیا تو مارے نخوت کے پاکستان کا پھیرا بھی نہیں مارا ۔پر اب کشکول توڑنے کا پیغام سن کر فوراًفون
کیا ۔لگتا ہے فون پہ اس نے بھی گھرکا ہو گا کہ ذیادہ بڑکیں نہ مار نیں نئیں تے فر میرا۔۔۔۔۔اس لیے میاں صاحب کو چاہیے کہ کشکول توڑیں ضرور توڑیں اور سچ مچ توڑدیں مگر پلیز ذرا دھیان سے توڑیں۔کیونکہ یہ تو ڑا تاڑی اور توڑ پھوڑ کی تاریخ بھی بڑی پرانی ہے۔محمود غزنوی نے غزنی پہ سترہ حملے کیے تھے اور سومنات کا مندر بھی توڑا تھا ۔تب کہیں جا کر اسے تاریخ میں بت شکن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔وہ سومنات کا مندر توڑ کر بت شکن بن گیا تھا آپ پاکستانی کشکول توڑ کر کشکول شکن بن جائیں۔ پر توڑیں ضرور بس پلیزذرا دھیان سے ۔۔

2 تبصرے ”کشکول شکن،پلیز ذرا دھیان سے ۔۔۔

  1. السلام علیکم
    بہت خوب نشاندہی کی ہے آپ نے ۔ ہمارے وطن میں کسی چیز کی کمی نہیں۔ ہر نعمت کی فراوانی ہے۔ اگر کمی ہے تو صرف عدل کی ہے ۔ اگر ہمارے تمام تر وسائل عادلانہ طور پہ بہترین نظم و نسق کے ساتھ استعمال ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے ہاتھ میں کچکول باقی رہے۔ ہمارے حکمران بد دیانت اور نااہل ہیں اور عوام سیدھے سادھے اور بے ہنر۔ وسائل کی فراوانی بھی انہیں خوشحال اور آسودہ نہیں کر سکتی۔

    قوموں کی تقدیر جذبوں اور نیک نیتی سے ضرور بدلتی ہے لیکن قوم پرستی سے نہیں ۔ آپ اسے جذبہ حبلوطنی یا قومی حمیت کہیں تو ٹھیک ہے ۔ قوم پرستی تو جاہلیت کا دوسرا نام ہے اور یہ قوموں کو تباہ کرتا ہے۔ اسی قوم پرستی نے تو ابھی تک کالاباغ دیم نہیں بننے دیا۔ اسی قوم پرستی نے تو کراچی کا امن تباہ کر دیا ، اسی قوم پرستی نے تو ہمارا مشرقی بازو ہم سے جدا کر دیا اور اب بلوچستان میں شورش برپا ہے ۔

    اللہ تعالی ہمیں عطا کردہ وسائل کے صحیح استعمال کی استطاعت اور نیک و عادل حکمران عطا فرمائے۔ آمین

    1. السلام و علئیکم عتیق صاحب تبصرہ تحریر کرنے کا شکریہ ۔آپ کی بات ایک حد تک درست ہے۔۔
      قوم پرستی سے میری مراد پاکستانی قوم ہے ۔۔مجھے پاکستانی قوم لکھنا چاہیے تھا ۔کیونکہ آجکل ذیادہ تر یہ لفظ اور معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں