۔ باعث افتخار انجینئر افتخار چودھری
رمضان المبارک، وہ مقدس مہینہ جس میں آسمان سے برکتیں نازل ہوتی ہیں، زمین رحمتوں سے بھر جاتی ہے، اور گناہوں میں ڈوبے دل بھی روشنی کی کرن محسوس کرتے ہیں۔ یہ مہینہ صبر، تقویٰ، عبادت، اور دوسروں کے ساتھ حسنِ سلوک کا درس دیتا ہے۔ مگر کچھ دل ایسے ہوتے ہیں جن پر نہ عبادات اثر کرتی ہیں، نہ قرآن کی تلاوت انہیں نرم کر پاتی ہے، اور نہ ہی اللہ کا خوف انہیں راہِ راست پر لاتا ہے۔
کہتے ہیں، کوئلہ اگر ہزار بار بھی دھویا جائے، تو پھر بھی کالا ہی رہتا ہے۔ کچھ لوگ بھی ایسے ہوتے ہیں، جن کی فطرت، ان کا ضمیر اور ان کے اعمال اس قدر سیاہ ہو چکے ہوتے ہیں کہ چاہے ان کے ساتھ کتنا ہی حسن سلوک کر لیا جائے، وہ اپنی خباثت سے باز نہیں آتے۔ وہ ہمیشہ ظلم، فریب، اور دھوکے کے راستے پر چلتے ہیں۔ انہیں دوسروں کے ساتھ ناانصافی کرکے خوشی محسوس ہوتی ہے، انہیں سچ دبانے اور حق کو پامال کرنے میں سکون ملتا ہے۔
پاکستان کی سیاست میں بھی ہم نے ایسے چالاک اور مکار لوگوں کو دیکھا ہے، جو خود کو دودھ سے دھلا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر حقیقت میں سب سے بڑے سازشی ہوتے ہیں۔ ان کا کمال دیکھیں کہ انہوں نے فارم 47 پر جیت حاصل کی، دھاندلی کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کیا، اور ساتھ ہی عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان نفرت کی دیوار کھڑی کر دی۔
یہی وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ دو کشتیوں میں سوار ہوتے ہیں۔ ایک طرف یہ فوج کو برا بھلا کہتے رہے، دوسری طرف فوج کو ہی اپنی طاقت بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی چالاکی دیکھیں کہ خود پیچھے رہے اور فوج کو بُرا ثابت کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔ مگر عمران خان نے ہمیشہ کہا کہ “یہ فوج ہماری ہے، ہم اس کے ہیں۔”
یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے ماضی میں گجرانوالہ میں کھڑے ہو کر فوج کے خلاف زہر اگلا۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کے کارکنوں نے “یہ جو دہشت گردی ہے، اس کے پیچھے وردی ہے” جیسے نعرے لگائے، مگر پاکستان تحریک انصاف نے آج تک ان نعروں کو اون نہیں کیا۔ کیونکہ تحریک انصاف کا نظریہ واضح ہے: پاکستان کی فوج پاکستان کی محافظ ہے، اور اسے کمزور کرنے کی ہر سازش ملک دشمنی کے مترادف ہے۔ میں نے پہلے بھی اپنے کالم میں لکھا تھا کہ یہ فوج ہماری ہے، کسی کانگریس یا ملا کی نہیں، اور نہ ہی ان لوگوں کی جو ماضی میں فوج کے خلاف زہر اگلتے رہے۔
عمران خان کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ اس نے پاکستان کے عوام کو غلامی سے نکلنے کا سبق دیا۔ اس نے قوم کو خواب دیکھنے اور ان خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کا حوصلہ دیا۔ اس نے اسٹیبلشمنٹ اور روایتی سیاستدانوں کے اس گٹھ جوڑ کو توڑنے کی کوشش کی جو دہائیوں سے ملک کو یرغمال بنائے ہوئے ہے۔
جب عمران خان نے کہا کہ پاکستان کو اپنے فیصلے خود کرنے چاہئیں، تو کچھ لوگوں کو یہ بات ناگوار گزری۔ جب عمران خان نے کہا کہ پاکستان کو بیرونی طاقتوں کی کٹھ پتلی بننے کے بجائے اپنے پیروں پر کھڑا ہونا چاہیے، تو سازشوں کے جال بُن دیے گئے۔ جب عمران خان نے کرپشن کے خلاف علم بلند کیا، تو وہی کرپٹ مافیا اس کے خلاف متحد ہو گیا۔
آج وہی شخص جسے قوم نے اپنے ووٹ کی طاقت سے وزیراعظم بنایا تھا، جیل میں قید ہے۔ اور وہ سیاستدان جو ملک کو لوٹ کر کھا گئے، جو قرضے معاف کراتے رہے، جو بیرونی طاقتوں کے اشارے پر حکومت کرتے رہے، وہ اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ کیا یہی انصاف ہے؟ کیا یہی عدل کا نظام ہے؟
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ظلم کا نظام کبھی زیادہ دیر نہیں چلتا۔ فرعون نے خود کو خدا سمجھا، مگر آخرکار دریائے نیل میں غرق ہو گیا۔ نمرود نے تکبر کیا، مگر ایک حقیر مچھر نے اس کا غرور خاک میں ملا دیا۔ شداد نے جنت بنانے کی کوشش کی، مگر اللہ کے عذاب سے نہ بچ سکا۔ یزید نے ظلم کی انتہا کر دی، مگر آج اس کا نام ذلت اور لعنت کے ساتھ لیا جاتا ہے۔
پاکستان کی تاریخ بھی ایسے کئی ظالموں کو دیکھ چکی ہے۔ ایوب خان نے مارشل لا لگایا، مگر عوام نے اس کے خلاف تحریک چلائی اور اسے اقتدار چھوڑنا پڑا۔ یحییٰ خان نے ظلم و جبر سے اقتدار قائم رکھنے کی کوشش کی، مگر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا داغ اس کے نام پر لگ گیا۔ ضیاءالحق نے جبر کی سیاست کی، مگر تاریخ نے اسے آمریت کی علامت بنا دیا۔ مشرف نے جمہوریت کو کچلا، مگر آخرکار اسے بھی اقتدار چھوڑ کر ملک سے بھاگنا پڑا۔
آج بھی پاکستان میں وہی کھیل جاری ہے۔ وہی ظلم، وہی جبر، وہی ناانصافی۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ ظلم ہمیشہ کے لیے نہیں رہتا۔ جو لوگ سمجھ رہے ہیں کہ وہ ہمیشہ اقتدار میں رہیں گے، انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے، مگر جب وہ حرکت میں آتی ہے تو بڑے بڑے ظالم مٹی میں مل جاتے ہیں۔
یہ صرف عمران خان کی آزمائش نہیں ہے، بلکہ یہ پوری قوم کا امتحان ہے۔ کیا ہم خاموش تماشائی بنے رہیں گے؟ کیا ہم بھی ظالموں کے ساتھ کھڑے ہو جائیں گے؟ یا ہم اپنے ضمیر کو جگائیں گے اور حق کا ساتھ دیں گے؟
اگر ہم نے آج ظلم کے خلاف آواز نہ اٹھائی، تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ اگر ہم نے ناانصافی کو قبول کر لیا، تو کل کو یہ ناانصافی ہمارے گھروں تک بھی پہنچ سکتی ہے۔ اگر آج ہم نے عمران خان کے ساتھ ہونے والے ظلم پر خاموشی اختیار کی، تو کل کوئی اور اس جبر کا شکار ہوگا۔
یہی رمضان کا اصل پیغام ہے—حق کے لیے کھڑا ہونا، انصاف کی حمایت کرنا، اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا۔ اگر آج ہم نے اپنی آواز بلند نہ کی، اگر آج ہم نے اس ناانصافی کے خلاف احتجاج نہ کیا، تو تاریخ ہمیں بھی ظالموں کے ساتھ کھڑا دکھائے گی۔
ہم نے تاریخ میں دیکھا کہ کئی طاقتور حکمران آئے اور چلے گئے۔ یزید نے ظلم کیا، مگر وہ زیادہ دیر نہ ٹھہرا۔ فرعون نے خود کو خدا سمجھا، مگر انجام دریائے نیل میں غرق ہونے کی صورت میں ہوا۔ نمرود نے تکبر کیا، مگر ایک مچھر اس کی موت کا سبب بن گیا۔ آج کے ظالم بھی زیادہ دیر نہیں بچیں گے۔
یہ وقت ہے کہ ہم اللہ سے دعا کریں کہ وہ ہمیں حق اور باطل میں تمیز کرنے کی توفیق عطا کرے۔ ہمیں ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کی ہمت دے۔ ہمیں ان اندھیروں سے نکال کر روشنی کی راہ دکھائے۔ رمضان میں مانگی گئی دعائیں قبول ہوتی ہیں، تو آئیے دعا کریں کہ اللہ عمران خان سمیت تمام بے گناہ قیدیوں کو رہائی عطا کرے، پاکستان کو عدل و انصاف کی راہ پر لے آئے، اور ہمارے ملک سے ظلم و ناانصافی کے اندھیروں کو مٹا دے۔
اللہ ہمیں وہ قیادت عطا کرے جو پاکستان کو واقعی ترقی، خوشحالی اور عزت کی راہ پر لے جائے۔ اللہ ہمیں غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرے اور ہمیں سچ کا ساتھ دینے کی توفیق دے۔
آمین یا رب العالمین!
Recent Comments