کون بنےگا کروڑ‌پتی

ایمان کا پیمانہ

عمر فراہی ۔ ای میل : umarfarrahi@gmail.com

کون بنے گا کروڑ پتی کے پروگرام میں شامل ایک مسلم نوجوان سے سوال
پوچھا گیاکہ آدم علیہ السلام، ابراہیم علیہ السلام ،یونس علیہ السلام اور جبرئیل علیہ السلام میں سے کون نبی نہیں ہے ۔کچھ دیر سوچنے کے بعد نوجوان نے کہا کہ مجھے اس سوال میں کنفیوژن ہے دوسرا آپشن دیا جائے ۔ نوجوان کو دوسرا آپشن تو دے دیا گیا لیکن اس نوجوان سے پروگرام کے ناظم امیتابھ بچن نے کہا کہ آپ چاہیں تو اپنی معلومات کیلئے پہلے سوال کا جواب بھی دے سکتے ہیں ۔ نوجوان نے بہت سوچ کر جواب دیا کہ یونس علیہ السلام!کروڑ پتی کےاس پروگرام میں اکثر مطالعے کے شوقین اور ذہین بچے ہی شامل ہوتے ہیں مگر افسوس تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کا بھی نصب العین اپنی معلومات سے دنیا کمانا تو ہے لیکن آخرت نہیں ! سوال یہ ہے کہ دنیا کا مستقبل ڈھونڈھنے والے ان نوجوانوں کا آخرت میں مستقبل کیا ہو گا اور کروڑ پتی میں امیتابھ بچن کے سوالوں کا جواب دینے والے قبر میں فرشتوں کا جواب کیسے دیں گے ؟کیا یہاں بھی کوئی آپشن ہوگا ؟پچھلے جمعہ کو مرول ناکہ کی ایک مسجد میں نماز جمعہ پڑھنے کا اتفاق ہوا ۔خطیب غالباً لکھنئو سے آنے والے کسی مسجد کے سفیر تھے ۔انہوں نے مسلم معاشرے میں سیرت النبی اور صحابہ کرام کے کردار سے ناوقفیت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاپر وسیم رضوی کے ذریعے بنائی گئی فلم اور اس کے خلاف لکھنئو کے مسلمانوں کی طرف سے احتجاج کئے جانے کی تیاری پر ہم نے وہاں کے نوجوانوں سے کہا کہ آپ احتجاج ضرور کریں لیکن ذراشہر کی آبادی میں کچھ مسلمانوں کا جائزہ لیکر یہ بھی دیکھ لیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی سیرت سے کتنے لوگ واقف ہیں ۔پھر انہوں نے یہ بھی کہا کہ افسوس مدارس کے طلباء میں بھی تاریخ اور سیرت کے مطالعے کا فقدان پایا جاتا ہے ۔
مدارس کا ذکر آیا تو مجھے یاد آیا کہ ایک محفل میں تعدد ازدواج پر گفتگو ہورہی تھی تو کسی نے کہا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرہ شادیاں کی تھیں جن میں گیارہ بیویاں بیک وقت ان کے نکاح میں تھیں ۔اتنا سننا تھا کہ ایک نوجوان عالم جو ایک مسجد میں چار یا پانچ سال امامت بھی کر چکے تھے انہوں نے کہا کہ جب اسلام میں چار شادیوں سے زیادہ کی اجازت ہی نہیں تو بیک وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گیارہ بیویاں کیسے ہو سکتی ہیں ۔ان کی اس معلومات پر حیرت ہوئی کہ کیا مدارس سے عالم وفاضل کی سند حاصل کرنے والے طلبہ بھی اللہ اور اس کے انبیاء کرام کے مقابلے میں عام مسلمانوں کے اپنے مرتبے اور اختیارات سے ناواقف ہو سکتے ہیں ؟کیا ان کا اسلامی تاریخ اور سیرت کا مطالعہ بھی اتنا کمزور ہو سکتا ہے ؟لیکن ایسا ہے ۔ ایک بار ہمارے محلے کی مسجد میں ایک خطیب نے کربلا کا واقعہ بیان کرتے ہوئے یزید کو رضی اللہ تعالیٰ عنہم کہا تو میں نے نماز بعد پوچھا کہ جناب یزید رضی اللہ عنہم کیسے ہو گئے۔کہنے لگے جس طرح حسن وحسین صحابی کے بیٹے اور صحابی ہیں یزید بھی تو ایک صحابی کے بیٹے ہیں !میں نے ان کو بتایا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم تو صحابی اور صحابی کے بیٹے ضرور ہیں لیکن یزید جن کی پیدائش رسول کی وفات کے بہت بعد ہوئی ہے انہیں صحابی کیسے کہا جاسکتا ہے ؟
کئی سال پہلے میں ایک مسلم مینجمنٹ کے تحت چلنے والے اپنے بچوں کے اسکول میں پی ٹی اے کا صدر تھا ۔اسی دوران میری ملاقات اسکول مینجمنٹ کی ایک ذمہ دار عمر دراز خاتون سے ہوئی جو بہت مخلص اور قوم پرست تو تھیں لیکن بات چیت اور شکل و صورت سے ان کی لبرل ذہنیت کا اندازہ لگانا بھی مشکل نہیں تھاجیسا کہ بیسویں صدی کے لبرل ترقی پسند جمہوری انقلاب کے بعد بہت تیزی کے ساتھ ہمارے ملک میں ایک ایسی ترقی پسند نسل کا وجود عمل میں آیا ہے جسے خود بھی اپنے آپ میں ایک مغرب زدہ مسلمان فرقہ کہا جاسکتا ہے ۔مسلمانوں کی پسماندگی کے تعلق سے ایک گفتگو کے دوران خاتون نے کہا کہ عمر صاحب آخر ہمارے لوگ بغیر سمجھے بوجھے سڑکوں پر احتجاج اور مظاہرے کیلئے کیوں اتر پڑتے ہیں ۔ان کا اشارہ سلمان رشدی کی کتاب شیطانی آیات کے خلاف ممبئی میں ہونے والے احتجاج سے تھا جس میں پولیس کی گولیوں سے کچھ نوجوان شہید بھی ہوئےتھے۔میں نے کہا میں آپ کا مطلب سمجھا نہیں ۔انہوں نے کہا کہ ان میں سے کتنے نوجوانوں نے رشدی کی کتاب کو پڑھا تھا ۔میں نے کہا شاید ایک نے بھی نہ پڑھا ہو اور اس احتجاج کی قیادت کرنے والے علماء نے بھی نہیں پڑھا ہوگا ۔محترمہ نے کہا تو پھر کیا یہ جہالت اور بیوقوفی نہیں ہے کہ بغیر دیکھے کہ مصنف نے کیا لکھا ہے احتجاج پر اتارو ہو جائیں ۔میں نے کہا آپ نے پڑھا ہے ۔انہوں نے کہا ضرورت نہیں سمجھا ۔میں نے کہا شاید آپ نے رسول ﷺاور ماں عائشہ کی سیرت پر بھی کوئی مطالعہ نہیں کیا ہوگا ۔انہوں نے پھر کہا کہ ہاں لیکن میں ان کا احترام کرتی ہوں ۔میں نے کہا وہ کیسے؟
انہوں نے کہا اپنے والدین اور رشتہ داروں سے ان کی شخصیت کے بارے میں سنتے آرہی ہوں ۔میں نے کہا کہ آپ نے اپنے والدین پر کیوں اعتبار کیا آپ کو خود مطالعہ کرنا چاہئے تھا ۔ہو سکتا ہے آپ کے اپنے والدین نے اپنے جن والدین سے سنا ہو ان کے والدین نے بھی غلط سنا ہو اور یقیناً ہندوستان میں مسلمان ایک ایسے طویل دور سے گزرا ہے جب یہاں کی زبان فارسی تھی اور یہ زبان صرف علماء ہی جانتے تھے باقی مسلمان آبادی سن کر ہی سنی تھی ۔محترمہ نے کہا جن کے بارے میں صدیوں سے لوگ اچھا کہتے چلے آئے ہوں یہی سند کافی ہے ۔میں نے کہا اسی طرح کیا کئی صدیوں تک رشدی کو برا نہیں کہا جاتا رہے گا؟ تو کیا اس غلط پر یقین کرنے کیلئے آپ کے پاس صدیوں کا وقت درکار ہے ؟رشدی کے خلاف جس طرح عالم اسلام سراپا احتجاج ہوا تو اس لئے کہ جن معتبر مسلمانوں تک یہ کتاب پہنچی انہوں نے اس کا نوٹس لیا ۔ظاہر سی بات ہے اس وقت کے ایرانی صدر آیت اللہ خمینی نے بغیر تحقیق کے تو رشدی کے خلاف قتل کا فتویٰ نہیں جاری کیا ہوگا ۔ اس کے بعد بھی کیا عوام کو اس کتاب کا مطالعہ کرنے کی ضرورت تھی ۔ ویسے بھی مطالعہ کرنے والے مسلمانوں کی کچھ فیصد تعداد ہی شاید رشدی جیسے مصنفوں کو پڑھتی ہو ۔ اور یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ جسے گالیاں دی جارہی ہے اور جو گالیاں دے رہا ہے اس کی تاریخ فرداً فرداًپڑھنے کے بعد ہی ہر شخص کی غیرت جاگنے پر مجبور ہو ۔سن کر مسلمان ہونا بھی صحابہ کی سنت ہے ۔
ماں عائشہ کی پاک سیرت کی گواہی قرآن نے بھی دی ہے اورایمان والوں کیلئے اتنا جاننا ہی کافی ہے کہ وہ ازواج مطہرات میں شامل ہیں اور انہیں ام المومنین کا درجہ حاصل ہے اور وہ اپنی ماں کے خلاف گستاخی برداشت نہیں کر سکتے ۔ اب جمہوریت میں اس کے سوا اور راستہ بھی کیا ہے کہ ایک شہری پر امن احتجاج سے اپنی تکلیف کا اظہار کرے ۔دیگر صورت میں وہ مقدس ہستیاں جو ہمارے دین کی بنیاد اور ستون ہیں اگر ان کے خلاف گستاخی برداشت کر لی گئی اور یہ سلسلہ یوں ہی چل نکلا تو دین کا اپنا وقار بھی ختم ہو جائے گا اور ابلیس یہی چاہتا ہے ۔ابلیسی طاقتیں ہر دور میں سب سے پہلے اللہ کے صالح بندوں کے کردار کو مشکوک اور مجروح کرنے کی سازشیں کرتی رہی ہیں تاکہ لوگ ان کی دعوت پر لبیک نہ کہیں۔بدقسمتی سے ہمارا لبرل اور معتدل مسلمان بھی ابلیسی طاقتوں کی سازش کا شکار ہے اور سڑکوں پہ نہ اترنے کیلئے طرح طرح کے بہانے اور تاویلات پیش کرتا ہے ۔مثال کے طور پر حال ہی میں ایک مولوی صاحب نے اپنی فیس بک وال پر لکھا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ سیاسی ہے مذہبی نہیں ۔ان کو کون سمجھائے کہ کشمیر مذہبی اور سیاسی مسئلہ نہ بھی ہو تو بھی انسانی مسئلہ تو ضرور ہے اور بحیثیت مسلمان مسلمانوں کا یہ اولین فریضہ ہے کہ وہ انسانیت کے خلاف ہونے والے کسی بھی فسادکو اگر دور کرنے کی طاقت نہ بھی رکھتا ہو تو کم سے کم اسے فساد کہے ۔ ایمان کا یہ بھی ایک پیمانہ ہے ورنہ خاموش رہیں چٹکلے نہ چھوڑیں ۔دنیا کے حکمرانوں کا عذاب تو وقتی ہے اللہ کا عذاب وقتی نہیں ہے ۔گندگی نہ پھیلائیں ۔مجبور اور محصور ہیں تو دیوار سے سر ٹکرا کر اللہ سے دعا کریں روئیں گڑ گڑائیں ہو سکتا ہے اللہ نجات کا کوئی سبب پیدا کردے ۔

اپنا تبصرہ لکھیں