کیا پاکستان واقعی غریب ہے�؟

Afshan Naveed
صاحبہ کی شاید ہی کوئی تحریر ہو جو رک کر سوچنے پر مجبور نہ کرے۔ اللّٰہ آپ کے قلم کو طاقت بخشے۔
جزاک اللہ خیرا کثیرا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سپر مال سے نکلتے ہوئے بیٹی بولی:”امّی جب میں پاکستان اتی ہوں تو لگتا ہے کہ یہاں پہ تو مالز میں صرف خواتین کے کپڑے ہی بکتے ہیں۔ بیرون ملک تو مالز میں چند دکانیں کپڑوں کی ہوتی ہیں اور باقی دنیا بھر کی چیزیں۔۔ لیکن یہاں تو کپڑوں سے شروع ہو کر کپڑوں پر ہی شاپنگ مال ختم ہو جاتے ہیں۔ہر ٹرپ پر نت نئی برینڈز۔۔۔۔
ہم تو دوسرے ملکوں میں بیٹھ کر پاکستان کی غربت کے درد ناک حال پڑھتے ہیں۔ یہاں تو مالز بھرے ہوئے ہیں۔۔
خواتین آرام سے لان کا جوڑا بھی سات ہزار, نو ہزار کا خرید رہی ہیں۔۔تب ہی تو یہ کمپنیاں بنا رہی ہیں۔۔۔
وہاں تو معمولی کپڑے بھی ہم پورا سال چلاتے ہیں۔بچوں کے کپڑے پرانے ہونے پر نہیں چھوٹے ہونے پر نئے خریدے جاتے ہیں,وہ بھی مہینوں سیل کا انتظار کرتے ہیں۔۔۔
پاکستان کی رپورٹنگ کرنے والے پاکستان کے خیر خواہ نہیں ہیں ۔۔
وہ پاکستان کو غریب ملک دکھاتے اور بتاتے ہیں ۔۔
یہاں چوک چوراہوں پر بڑے بڑے اشتہارات میں نئے برینڈز کی تشہیر دیکھ کر لگتا ھے ماشاءاللہ یہاں بہت کھاتے پیتے لوگ بستے ہیں۔۔
شام کے وقت ہر اسٹریٹ فوڈ اسٹریٹ ہے۔۔
جہاں مہنگی چیزیں دستیاب ہیں مگر رش ایسا ہے جیسے لنگر تقسیم ہو رہا ہے۔”
میں نے کہا:” سوچنے کی بات یہ ہے کہ خواتین اتنے زیادہ لباس کیوں بناتی ہیں؟
چاہے وہ ہم پیشہ مرد ہوں یا خاندان کے محرم مرد۔۔۔
جو خواتین کو بہت اچھے لباسوں میں دیکھنا چاہتے ہیں وہ مرد خود سال میں کتنے جوڑے بناتے ہیں؟
کسی عورت کا تشخص لباس کے ساتھ جوڑنا کیا نسوانیت کی خیر خواہی ہے یابدخواہی؟
کیا ہم لباس میں تولے جانے والی کوئی شے ہیں؟

یہاں خواتین کو برانڈز یعنی شطرنج کی چالوں میں پھنسا دیا گیا ہے ۔۔
یہ گویا سانپ اور سیڑھی کا کھیل ہے۔ہم خریداری کر کے بلندی پہ پہنچنے کی کوشش کرتی ہیں۔۔۔
پھر نئی سیل لگتی ہے۔۔۔۔نئی آفرز,نئے ڈیزائن,یوں لگتا ہے کہ میں تو سیڑھی کے سب سے اخری سرے پر پڑی ہوں۔۔
یہ وقت کا بہت بڑا اور سنجیدہ سوال ہے کہ خواتین اتنے کپڑے کیوں بناتی ہیں ؟
برینڈڈ کمپنیاں سال میں کئی بار سیل لگا کر خواتین کی مت مار دیتی ہیں۔۔
اب ہمارے موضوعات انہی برینڈز کے گرد گھومتے ہیں۔۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کو ناپتے ہی اس پیمانے میں ہیں ۔۔
ہم” برینڈز” سے مخاطب کے ذوق اور معاشی پس منظر کا اندازہ کرتے ہیں۔
کوئی نہ پوچھے تو ہم خود باتوں باتوں میں بتا دیتی ہیں۔۔۔”آپ کی بے بی کتنی پیاری ہے۔”
” جی یہ اس پنک فراک میں بہت پیاری لگتی ہے۔یہ میں نے منی مائنر سے سیل میں لی تھی۔۔۔سات ہزار کی ہانچ ہزار میں مل گئی۔۔”
“آپ کی دلہن کتنی پیاری ہے ماشاءاللہ۔”
“جی الحمد للہ۔۔میں نے بھی اسکی پسند ملحوظ رکھی۔۔ماریہ بی کو آرڈر دے کر سب کپڑے بنوائے۔۔آج کل کی لڑکیاں بہت چوزی ہیں ایسا ویسا ہسند نہیں کرتیں۔”

بات وہیں ختم ہوتی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کا کمال ہے کہ حرص اور ہوس پیدا کر کے نیم دیوانہ بنا دیتا ہے۔۔
کھانے اور کپڑے کی اتنی ہوس ہماری زندگی میں ا چکی ہے کہ ہماری زندگی اور بیشتر معاشی سرگرمیوں کا مقصد انہی دو خواہشوں کی تکمیل ہے۔۔
ہم صبح اٹھ کر یہی سوچتے ہیں کہ کل سے اچھا کھانا, آج کے دن کو زیادہ پرلطف بنانا ہے۔۔
ہم میں سے کتنے سوچتے ہیں کہ کل نمازیں بے جان سی تھیں آج خشوع کی کیا تدبیر یوسکتی ہے۔۔اتنے دن سے کوئی سورة حفظ نہیں کی۔۔۔رمضان کے بعد سے قرآن سے تعلق ہی ٹوٹ گیا۔۔
کتنے رشتے دار ہیں جن سے فون پر بھی دعا سلام نہیں ہوئی۔کتنے لوگ میرے منتظر ہیں۔۔
میں آج کے دن کس کو کیا خوشی دے سکتی ہوں۔۔۔

ہم دوسرے کو خوشی دینے کا تب ہی سوچ سکتے ہیں جب خود کو خوشی دینے اور آج کیا پکے گا, اور کیا مزید کیا خریداری کرنا ھے سے آگے سوچیں۔۔۔
جب کوئی کہتا ہے “اپنا خیال رکھیے گا” تو سوچتی ہوں کیا یہ خیرخواہی ہے؟
بات تو تب بنتی ہے کہ ہم مخاطب سے کہیں کہ” اپنے ساتھ آس,پاس والوں کا بھی خیال رکھیے گا۔۔۔۔یہ آس,پاس والے معمولی لوگ نہیں چاہے پڑوسی ہیں یا رشتہ دار۔۔یہ خاموش لوگ اپنے حقوق طلب کرکے ہمارا مقدمہ گھمبیر بنا سکتے ہیں روز حشر۔۔۔خدانخواستہ۔
افشاں نوید
٢٠ ذی الحج ١٤٤٥ ھ
27 جون 2024

اپنا تبصرہ لکھیں