کینیڈا میں اذان کے خلاف نفرت کا اظہار کرنے والے بھارتی شہری کو نوکری سے نکال دیا گیا۔ ٹائمز آف انڈیا کے مطابق کینیڈین صوبے اونٹاریو میں 1984ءمیں شوروغل کے متعلق ایک قانون منظور کیا گیا تھا جس میں صرف چرچ کی گھنٹیاں بجائے جانے کی اجازت دی گئی تھی تاہم اب تمام مذاہب کی عبادت گاہوں کو اس قانون سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا جس کے بعد مساجد سے اذان بھی شروع ہو گئی۔ اونٹاریو کے شہر بریمپٹن کے میئر پیٹرک براﺅن نے مسلمانوں کو یہ خوشخبری اپنے ٹوئٹر اکاﺅنٹ کے ذریعے دی۔
پیٹرک براﺅن کی اس ٹویٹ کے جواب میں روی ہوڈا نامی اس بھارتی شہری نے اذان کے متعلق اپنی نفرت کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ”آپ مزید کیا کریں گے؟ کیا اونٹوں اور بکریوں پر سوار لوگوں کے لیے سڑکوں پر الگ قطاریں بنائیں گے، قربانی کے نام پر گھروں میں جانور ذبح کرنے کی اجازت دیں گے، کیا تمام خواتین کو خود کو سر سے پاﺅں تک ڈھانپ لینے کا حکم دیں گے۔ آپ ووٹ کے لیے یہ سب کچھ کریں گے؟“
رپورٹ کے مطابق روی نامی یہ شخص رئیل اسٹیٹ ایجنٹ اور امیگریشن کنسلٹنٹ تھا۔ اس کے علاوہ وہ میک ویل پبلک سکول میں سکول کونسل کا سربراہ بھی تھا۔ اس نے اب یہ ٹویٹ ڈیلیٹ کر دی ہے اور اپنا ٹوئٹر اکاﺅنٹ پرائیویٹ کر دیا ہے لیکن اس کی یہ ٹویٹ پہلے ہی بہت وائرل ہو چکی تھی اور صارفین نے اس کی ٹویٹ کی طرف سکول انتظامیہ کی توجہ مبذول کرائی جس پر انتظامیہ نے اسے سکول کونسل کے اس عہدے سے ہٹا دیا۔جب یہ معاملہ رئیل اسٹیٹ کمپنی ’آر ای/میکس ‘ کے علم میں آیا جس سے روی بطور ایجنٹ منسلک تھا تو اس نے بھی اسے نوکری سے نکال دیا۔ سکول اور کمپنی دونوں کی طرف سے روی کو نکالے جانے کے تصدیقی بیانات سامنے آ چکے ہیں۔