امریکہ نے 16جولائی 1945ءکو صبح 5بج کر 29منٹ اور 45سیکنڈ پر دنیا کا پہلا ایٹمی تجربہ نیو میکسیکو میں کیا۔ امریکہ کی طرف سے ایٹم بم تیار کرنے کے اس منصوبے کو مین ہیٹن پراجیکٹ کا نام دیا گیا تھا۔ اس ایٹمی دھماکے کے نتیجے میں شیشے کے کچھ ٹکڑے بن کر پورے علاقے میں پھیل گئے۔ اب ایسے ہی کچھ ٹکڑے لیبیا اور مصر سے دریافت ہوئے ہیں جن سے ایسا انکشاف منظرعام پر آیا ہے کہ سن کر آدمی دنگ رہ جائے۔ میل آن لائن کے مطابق شیشے کے یہ ٹکڑے مصر اور لیبیا کے بارڈر پر 10مربع کلومیٹر کے علاقے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ امریکہ کے میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ماہر انجینئر ایلبائن ڈبلیو ہارٹ کا کہنا ہے کہ مصر اور لیبیا سے ملنے والے یہ ٹکڑے کروڑوں سال پرانے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اس زمانے میں بھی اس جگہ پر ایٹمی دھماکہ کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں یہ ٹکڑے بنے۔ چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں یہ دنیا کے قدیم ترین ایٹم بم کے ٹکڑے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ لیبیا اور مصر سے ملنے والے یہ ٹکڑے 2کروڑ 60لاکھ سال سے 2کروڑ 80لاکھ سال قدیم ہیں۔ ایسے ہی سیلیکا شیشے (Silica glass)کے ٹکڑے منگولیااور چین سے بھی برآمد ہو چکے ہیں اور یہ بھی کروڑوں سال قدیم ہیں۔ جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین کروڑوں سال پہلے بھی ایٹمی طاقت رہ چکا ہے۔ دنیا میں کئی مقامات پر ایٹم بموں کے دھماکوں کے آثار بھی دریافت ہوئے ہیں۔ ان میں روس اور سکاٹ لینڈ میں کروڑوں سال قدیم پگھلی ہوئی دیواروں کا دریافت ہونا بھی ہے جو ممکنہ طور پر ایٹم بم کے دھماکے کی وجہ سے پگھلی تھیں۔ ان تمام شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ کروڑوں سال قبل بھی انسان ایٹم بم بنا کر اپنی ایک تہذیب کو تباہی سے دوچار کر چکا ہے۔