یاد رہے گا 2019 کا الیکشن

آئینہ شب و روز : سہیل انجم

آزاد ہندوستان کا غالباً یہ پہلا ایسا پارلیمانی الیکشن ہوگا جو اپنی خوبیوں کی وجہ سے کم اور اپنی خامیوں کی وجہ سے زیادہ یاد رکھا جائے گا۔ جب بھی اس کی خامیوں کو بیان کیا جائے گا تو بہت سی باتوں کے ساتھ ساتھ ان دو باتوں کا بطور خاص ذکر ہوگا۔ ایک وزیر اعظم اور بی جے پی کے اسٹار پرچارک نریندر مودی اور پارٹی صدر امت شاہ کی سطحی بیان بازی اور دوسرے الیکشن کمیشن آف انڈیا کی نااہلی و ناکارکردگی۔ سطحی بیان بازی کے زمرے میں ان کی جانب سے مثالی ضابطہ ¿ اخلاق کی متواتر خلاف ورزیوں کو بھی رکھا جا سکتا ہے۔ الیکشن کمیشن ایک آزاد، خود مختار اور طاقتور آئینی ادارہ ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ اسے اختیارات حاصل نہیں ہیں تو یہ بات قابل قبول نہیں ہوگی۔ اس سے قبل ٹی این سیشن، ایم ایس گل اور ماضی قریب میں ڈاکٹر ایس وائی قریشی نے جس طرح کمیشن کے اختیارات کا استعمال کرکے اس کے وقار میں اضافہ کیا تھا اسے بھلایا نہیں جا سکتا۔ ایس وائی قریشی نے تو لکھنو ¿ میں بی ایس پی کے انتخابی نشان یعنی ہاتھیوں کے تمام مجسموں پر نقاب ڈلوا دی تھی۔ اس کے علاوہ بھی انھوں نے ایسے متعدد اقدامات کیے تھے جن سے کمیشن کا وقار بلند ہوا تھا۔ اور پھر دور مت جائیے خود اسی الیکشن میں دیکھ لیجیے۔ جب کمیشن نے سپریم کورٹ سے کہا کہ ہمارے پاس اختیارات نہیں ہیں تو کورٹ نے زبردست پھٹکار لگائی اور یاد دلایا کہ ہم چیف الیکشن کمشنر کو بھی عدالت میں طلب کر سکتے ہیں۔ اس کے بعد اچانک الیکشن کمیشن کو اپنے اختیارات کا ادراک ہو گیا اور اس نے مایاوتی، یوگی آدتیہ ناتھ، اعظم خان اور مینکا گاندھی وغیرہ کے خلاف کارروائی کی۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اس نے بھوپال سے بی جے پی کی امیدوار سادھوی پرگیہ ٹھاکر کے خلاف بھی ایکشن لیا۔
لہٰذا یہ کہنا کہ کمیشن کے پاس اختیارات نہیں ہیں سورج کی روشنی کا انکار کرنا ہے۔ ہاں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ موجودہ کمیشن کے پاس جرا ¿ت و ہمت نہیں ہے۔ یہ ایک انتہائی بزدل قسم کا اور پھسڈی ٹائپ کا ادارہ بن گیا ہے۔ اس کے پاس اتنی جرا ¿ت نہیں ہے کہ وہ طاقتور رہنماو ¿ں کے خلاف کارروائی کرے۔ اگر اپوزیشن جماعتوں کے الزامات کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تو یہ نتیجہ برآمد ہوگا کہ ضابطہ ¿ اخلاق کی خلاف ورزی وہ شخصیت زیادہ کر رہی ہے جسے اس کا سب سے زیادہ پاس و لحاظ رکھنا چاہیے تھا۔ قارئین سمجھ گئے ہوں گے کہ اشارہ وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب ہے۔ کمیشن نے ابتدا ہی میں یہ ہدایت دے دی تھی کہ انتخابی مہم کے دوران فوج کے نام کا استعمال نہیں کیا جائے گا۔ لیکن وزیر اعظم مودی نے اسے سنا ہی نہیں۔ پہلے تو ان کے اسٹیج کے پس منظر میں فوجی جوانوں کی تصویریں آویزاں کی گئیں۔ جب اس پر ہنگامہ ہوا تو انھوں نے پلوامہ اور بالاکوٹ کے نام پر ووٹ مانگا۔ انھوں نے پائلٹ ابھینندن کے نام کا بھی استعمال کیا اور پاکستان کے خلاف بولتے ہوئے کہا کہ ابھی تو ہم نے پائلٹ پروجکٹ کیا ہے۔ اس کے بعد بھی متعدد مواقع پر انھوں نے فوج کا نام لیا۔ مذہب اور ذات برادری کے نام پر بھی ووٹ نہیں مانگا جا سکتا اور نہ ہی ایسی تقریر کی جا سکتی ہے جس سے دو فرقوں میں منافرت پیدا ہو۔ لیکن مودی جی نے اس قانون کی بھی دھجیاں اڑائیں۔ ہندو دہشت گردی کی اصطلاح کی آڑ میں انھوں نے جو کچھ کہا وہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی تھی۔ انھوں نے کیرالہ کے ویاناڈ سے راہل گاندھی کے الیکشن لڑنے کو بھی فرقہ وارانہ رنگ دیا اور اپنے بیان سے ملک کے دو بڑے فرقوں کے مابین نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ اس نے مودی کے خلاف تیس سے زائد مرتبہ کمیشن سے شکایت کی۔ مگر اس نے تمام شکایتوں میں انھیں کلین چٹ دے دی۔ اب اس نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے جس نے کمیشن کے فیصلوں کی تفصیل پیش کرنے کی ہدایت دی ہے۔ قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ جن معاملات میں مودی کو کلین چٹ دی گئی ہے ان میں سے پانچ معاملات میں کیا جانے والا فیصلہ متفقہ نہیں ہے۔ یعنی پانچ شکایتوں میں تین میں سے ایک الیکشن کمشنر اشوک لواسا نے پایا کہ مودی نے ضابطہ ¿ اخلاق کی خلاف ورزی کی ہے۔ لہٰذا انھوں نے مودی کے خلاف کارروائی کی بات کہی۔ لیکن چونکہ اکثریت کا فیصلہ مانا جاتا ہے اس لیے دو ایک سے مودی کو کلین چٹ دے دی گئی۔ اسی طرح امت شاہ کو بھی کلین چٹ دے دی گئی ہے۔ متعدد کارٹونسٹوں اور تجزیہ کاروں نے ان فیصلوں کا مذاق اڑایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا میں شاید ہی کسی کو اتنی کلین چٹ ملی ہو جتنی کہ مودی کو مل گئی۔
مودی نے اس بار کے الیکشن کو انتہائی سطحی بھی بنا دیا ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ دوسرے لیڈران بہت مہذب ہیں یا وہ ناشائستگی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ لیکن اول الذکر معاملے کی مانند اس معاملے میں بھی سب سے زیادہ ذمہ داری سب سے اونچے منصب پر فائز شخص پر عاید ہوتی ہے۔ لیکن مودی نے اس معاملے میں بھی سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ انھوں نے تو مُردوں تک کو نہیں بخشا۔ جبکہ بحث کا اصول یہ ہے کہ اگر کوئی فریق یا کوئی شخص جواب دینے کے لیے موجود نہیں ہے تو اس کا ذکر نہ کیا جائے۔ اگر راجیو گاندھی اس وقت ہوتے اور مودی بوفورس معاملے میں ان پر تنقید کرتے یا الزام لگاتے تو بات ٹھیک تھی۔ ایک ایسا شخص جو ملک کا وزیر اعظم رہا ہو۔ جو بھارت رتن جیسا باوقار اعزاز یافتہ ہو اور ملک کی ایک بڑی اور تاریخی سیاسی جماعت کا صدر رہا ہو۔ جس نے ملک کو ترقی کے راستے پر گامزن کیا ہو اور وہ دنیا میں موجود بھی نہ ہو اس کے بارے میں الزام تراشی کرنا تمام تر اخلاقیات کو دریابرد کر دینا ہے۔ اور پھر بوفورس سودے میں عدالت ان کو کلین چٹ دے چکی ہے۔ اس کے باوجود اس حوالے سے ان کو بھرشٹاچاری نمبر ون کہنا ذہنی دیوالیہ پن ہے۔ اپوزیشن رہنماو ¿ں کی جانب سے ان کے بیان پر شدید رد عمل جاری ہے۔ ادھر امت شاہ نے ان لوگوں کو جن کے نام این سی آر یا نیشنل رجسٹر سٹیزنس میں نہیں ہیں دیمک کہہ کر در اصل مسلمانوں کے خلاف بیان بازی کی ہے۔ ایسی سطحی بیان بازی میں بھلا آدتیہ ناتھ کا مقابلہ کوئی کر سکتا ہے۔ وہ کیوں پیچھے رہتے۔ انھوں نے مسلمانوں کو ”ہرا وائرس“ کہہ دیا۔ ان کے اس بیان پر کسی تجزیہ کار نے کہا کہ وہ لوگ ترنگے میں ہرے رنگ کو کیسے برداشت کر رہے ہیں۔ ارے جناب! بس وہ برداشت کر رہے ہیں۔ ورنہ ان کی چلے تو وہ ترنگے کی جگہ پر بھگوا پرچم کو قومی پرچم کا درجہ دے دیں۔ ان لیڈروں کے علاوہ دوسرے لیڈران بھی ہذیان گوئی میں مبتلا ہیں۔ مگر الیکشن کمیشن منہ دیکھ کر ایکشن لیتا ہے۔ اس نے اپنا غیر جانبدار ریفری کا فریضہ شاید فراموش کر دیا ہے۔ ورنہ اس سے ایسی توقع نہیں کی جا سکتی تھی۔ ممکن ہے کہ اس کے پس پردہ مستقبل میں مراعات حاصل کرنے کا جذبہ کارفرما ہو۔ ماضی میں ہم نے بارہا دیکھا ہے کہ کسی اعلیٰ منصب پر فائز شخص نے حکومت کی خوشامد میں فیصلے کیے اور منصب سے سبکدوشی کے بعد اسے بطور انعام کوئی اور منفعت بخش منصب مل گیا۔ حالانکہ ہم یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ موجودہ چیف الیکشن کمشنر اسی وجہ سے ایسے فیصلے کر رہے ہیں جن سے حکومت کو خوش کرنے کا پہلو نکلتا ہو۔ بس ماضی کے واقعات کی روشنی میں ہم نے یہ بات کہہ دی ورنہ موجودہ چیف الیکشن کمشنر پر ہمارا

اپنا تبصرہ لکھیں