باعث افتخار۔ انجنیئر افتخار چودھری
“مجھ سے کہا مت بول، میں نے کہا مت ظلم کر!”
یہ الفاظ کسی مظلوم کے نہیں، بلکہ ہر اس پاکستانی کے ہیں جو اس ملک کی عدالتی تاریخ کو دیکھ کر سوچتا ہے کہ یہ انصاف کی کرسی پر کون بیٹھا ہے؟ یہ فیصلے کون دے رہا ہے؟ اور ان فیصلوں کے اثرات اس قوم پر کیا ہوں گے؟
ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں عدالتیں طاقتوروں کے لیے فیصلے تیار رکھتی ہیں اور کمزوروں کے لیے بہانے۔ جہاں انصاف کی ترازو وزنی جیبوں، لمبے ہاتھوں اور بند کمروں میں ہونے والی سودے بازیوں کے تابع ہو چکی ہے۔ آج عدالتوں کے فیصلے صرف ملک کے اندر نہیں، بلکہ پوری دنیا میں پاکستان کے عدالتی نظام کا مذاق بنا رہے ہیں۔
یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا۔ اس عدالتی بحران کی بنیاد تب رکھی گئی تھی جب جسٹس منیر نے “نظریۂ ضرورت” تخلیق کیا۔ 1954 میں جب گورنر جنرل غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی توڑی تو چیف جسٹس منیر نے اس غیر آئینی اقدام کو “جائز” قرار دے دیا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب قانون طاقتور کے حق میں جھکنا شروع ہوا، اور عدالتیں انصاف کے بجائے طاقت کے تابع ہو گئیں۔
اگر آج ہماری عدالتیں کسی سیاسی جماعت کو اس کا انتخابی نشان چھین کر بے توقیر کر رہی ہیں، اگر وہ مظلوموں کو انصاف دینے کے بجائے ان کی تذلیل کر رہی ہیں، تو یہ سب کچھ اسی بیج کا نتیجہ ہے جسے جسٹس منیر نے پانی دیا تھا۔
لیکن پاکستان کی عدالتی تاریخ صرف جسٹس منیر جیسے ججوں پر مشتمل نہیں۔ اسی سرزمین نے جسٹس ایم آر کیانی جیسے نڈر جج بھی پیدا کیے، جو سچ بولنے سے نہ گھبرائے۔ انہوں نے نہ صرف حکومت کی غلط پالیسیوں پر کھل کر تنقید کی بلکہ عوامی مسائل پر بھی دوٹوک بات کی۔ وہ جج جو خود کو عوام کا خادم سمجھتا تھا، نہ کہ طاقتوروں کا سہولت کار۔
مگر افسوس، جسٹس کیانی جیسے لوگ اب عدالتوں میں نہیں رہے۔ اگر ہوتے تو آج یہ حال نہ ہوتا کہ عدالتیں مظلوموں کا مذاق اڑا رہی ہوتیں، اور طاقتوروں کے لیے فیصلے “حسبِ ضرورت” دیے جا رہے ہوتے۔
آج جب میں سعودی عرب میں ایک مجلس میں بیٹھا تھا، تو کسی نے مجھ سے پوچھا: “یہ عدت کیس کیا ہے؟ عدالت کسی عورت کی نجی زندگی میں کیوں جھانک رہی ہے؟” میں شرمندہ ہو گیا۔ میں انہیں کیا جواب دیتا؟ کہ ہمارے ہاں عدلیہ صرف طاقتوروں کے کہنے پر فیصلے دیتی ہے؟ کہ یہاں جج، جج کم اور منصفوں کے بھیس میں مسخرے زیادہ لگتے ہیں؟
جب دنیا یہ دیکھتی ہے کہ پاکستانی عدالتیں کبھی ایک سیاسی جماعت کا نشان چھین لیتی ہیں، کبھی کسی مقبول رہنما کو جیل میں ڈال دیتی ہیں، اور کبھی کہتی ہیں: “دکھاؤ، کہاں کہاں زخم ہیں؟” تو وہ ہنستے ہیں، ہمارا مذاق اڑاتے ہیں۔ انہیں پاکستان کی عدلیہ ایک سرکس لگتی ہے، جس میں انصاف نہیں ہوتا، صرف کھیل تماشا ہوتا ہے۔
یہ وہی عدالتیں ہیں جو طاقتوروں کے اشارے پر مخالفین کو نشانِ عبرت بناتی ہیں، سیاسی جماعتوں کے وجود کو ختم کر دیتی ہیں، اور ایسے فیصلے سناتی ہیں کہ پوری دنیا ہنسنے لگتی ہے۔
یہ وہی عدالتیں ہیں جنہوں نے:
ذوالفقار علی بھٹو کو عدالتی قتل کا نشانہ بنایا۔
نواز شریف کو ایک اقامہ پر نااہل کیا۔حالانکہ ان کا جرم ملک کو لوٹنا تھا اور اس کے واضح ثبوت بھی موجود تھے
عمران خان کو جھوٹے مقدمات میں پھنسا کر جیل میں ڈالا۔
ایک زندہ پارٹی کو انتخابی نشان سے محروم کر دیا۔
طاقتوروں کے کہنے پر کمزوروں کو سزائیں سنائیں۔
لیکن اسی عدالت میں اگر کوئی طاقتور کھڑا ہو، تو وہ مردہ بھی ہو تو بری کر دیا جاتا ہے!
یہ سب کچھ دیکھ کر لگتا ہے کہ ہم نازی جرمنی کے کسی سیاہ باب میں کھڑے ہیں، جہاں عدالتیں عوام کے لیے نہیں، بلکہ ریاستی جبر کے لیے استعمال ہو رہی ہیں۔
ہٹلر نے اپنی مرضی کے جج بٹھائے، پاکستان میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔
نازی جرمنی میں سیاسی مخالفین کو جھوٹے مقدمات میں پھنسایا گیا، پاکستان میں بھی یہی کھیل جاری ہے۔
جرمنی میں انصاف کا نعرہ لگانے والوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا، یہاں انہیں جیلوں میں سڑایا جا رہا ہے۔
یہ وہ لمحہ ہے جب ہمیں سوچنا ہوگا کہ یہ ملک کس کا ہے؟ اگر یہ ملک عوام کا ہے تو پھر یہ عدالتی تماشا مزید نہیں چل سکتا۔ پھر ہمیں وہی سوال پوچھنا ہوگا جو تاریخ میں کئی بار پوچھا گیا ہے: “یہ عدالتیں انصاف کے لیے بنی تھیں یا ظلم کے تحفظ کے لیے؟”
لیکن یہاں ظلم کی ایک اور شکل بھی ہے۔ شاعر فرہاد کی بیوی کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ کسی مرد نے نہیں، کسی جابر ریاستی مشینری نے نہیں، بلکہ عورتوں نے کیا۔ ایک عورت پر دوسری عورت کا ظلم شاید اس سے بھی بدتر ہے جو مرد کسی عورت پر کرتا ہے، کیونکہ عورت کی تکلیف کو عورت سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے؟
جج عورت ہو یا کوئی اور، جب انصاف کے بجائے ظلم کا ساتھ دیتی ہے، تو وہ ایک ڈائن بن جاتی ہے، جو دوسروں کے حقوق کھا جاتی ہے۔
لیکن یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ عوام اب جاگ چکے ہیں۔ اگر عدلیہ عوام کے ساتھ نہیں کھڑی ہوگی، تو عوام بھی عدلیہ کو نہیں مانے گی۔ اگر انصاف کے ایوانوں میں ظلم کے فیصلے سنائے جائیں گے، تو عوام سڑکوں پر اپنا فیصلہ دیں گے۔
یہ ملک کسی جج، کسی جرنیل، کسی طاقتور سیاستدان کی جاگیر نہیں۔ یہ عوام کا ملک ہے، اور جب عوام کھڑے ہوتے ہیں تو تاریخ بدل جاتی ہے۔
آج وقت آ گیا ہے کہ عوام ان ججوں، ان عدالتوں، ان فیصلوں کے خلاف مزاحمت کریں جو انصاف کو بیچ رہے ہیں۔ ورنہ وہ دن دور نہیں جب ہم سب اسی اندھیرے کا حصہ بن جائیں گے، جسے آج ہم دیکھ کر بھی نظر انداز کر رہے ہیں۔
“ہم چراغ لے کر نکلے تھے، روشنی چھین لی گئی، مگر ہوا کو حکم نہیں دے سکتے، وہ چراغ پھر جلائے گی!”
Recent Comments