ترکی نے شام کے شمالی علاقوں پر حملہ کرکے وہاں سے کردوں کو نکال باہر کیا ہے اور اس علاقے کو ترکی اور شام کے درمیان سیف زون بنا دیا ہے تاہم ترکی کے اس حملے سے شدت پسند تنظیم داعش کے دوبارہ زور پکڑنے کی خبریں گردش میں ہیں۔ میل آن لائن کے مطابق شام کے اسی علاقے میں الحول کیمپ نامی جیل موجود ہے جس میں داعش کے شدت پسندوں کے بیویاں بچے رکھے گئے ہیں۔ یہاں 70ہزار خواتین قید ہیں جن میں سے اکثر داعش میں متحرک بھی رہی تھیں۔ اب اس جیل پر عملاً داعش کی ان قیدیوں کا قبضہ ہو چکا ہے۔
بتایا جا رہا ہے کہ جب جیل میں قید خواتین کو ترکی کے حملے کے بارے میں پتا چلا تو انہوں نے جیل کے گارڈز پر حملے شروع کر دیئے، جن کا تعلق کرد فورسز سے تھا۔ ترکی کے حملے کے باعث زیادہ تر گارڈز ترک افواج سے لڑنے کے لیے چلے گئے۔ باقی گارڈز پر قیدی خواتین نے پتھراﺅ کرنا شروع کر دیا اور جو ان کے ہاتھ لگتا اس پر پٹرول چھڑک دیتیں۔
جیل کی ایک گارڈ نے ٹائمز کے ایک صحافی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ”مجھ پر ایک خاتون قیدی اور اس کی دو بیٹیوں نے تشدد کیا۔ ان میں سے دو نے مجھے پکڑ لیا اور تیسری نے پٹرول سے بھرا کین میرے اوپر الٹ دیا۔“ الحول کیمپ کی منتظم ایلول ریزگر کا کہنا تھا کہ” ہمیں ایک قیدی کے بیگ سے 10سالہ بچے کی لاش بھی ملی ہے۔ مجھے خدشہ ہے کہ اگر داعش شام میں دوبارہ طاقت میں نہ آجائے۔ اگر ایسا ہوا تو وہ میرا سر کاٹ کر کسی کھمبے پر لٹکا دیں گے۔“
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ترکی کے حملے کے باعث شام کی جیلوں پر کرد فورسز کی نفری کم ہونے کے باعث وہاں سے 100سے زائد شدت پسند فرار ہو چکے ہیں۔کرد فورسز کے سکیورٹی پٹرول پر پتھراﺅ کے بے شمار واقعات پیش آنے شروع ہو گئے ہیں جو داعش کے لوگ ہی کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ داعش کے مفرور لیڈر ابوبکر البغدادی نے گزشتہ ماہ اپنے ایک پیغام میں اپنے حامیوں سے کہا تھا کہ وہ شام کی ان تمام جیلوں پر حملے کریں جہاں داعش کے شدت پسند یا ان کے اہلخانہ قید کیے گئے ہیں تاکہ انہیں آزاد کروایا جا سکے۔