ایک تحریر ایک تجزیہ
شازیہ عندلیب
مشتعل ہجوم بازار میں شاپنگ کرنے والی خاتون سے لباس کے بارے میں جو غیر اخلاقی مطالبہ کر رہا تھاوہ تو کوئی مرد بھی پورا نہیں کر سکتا؟خبر میں بتایا گیا ہے کہ ایک خاتون کے لباس پر عرببی حروف تحجی کو قرآنی آیات سمجھ کر ہجوم مشتعل ہو گیا۔یعنی کہ مملکت خدا داد پاکستان میں کسی ماں بہن کی عزت ہی محفوظ نہیں۔یہ جو سڑکوں پر بے ہنگم ہجوم نظر آتا ہے اسے کوئی کچھ بھی کہ دے یہ وہی کرنا شروع کر دے گا۔کوئی مشتعل کر دے یہ مشتعل ہو جائے گا، کوئی الو بنا لے یہ الو بن جائے گا، کوئی تماشہ دکھا دے یہ تماش بین بن جائے گا۔بحیثیت قوم ہمارے ہاں ہجوم ایک بے عقل انسانوں کا ریوڑ ہے جو عقل سے عاری ہے۔وہ بھی لاہور جیسے تہذیبی اور تاریخی شہر میں۔یہاں کسی کی عزت ہی محفوظ نہیں۔
گزشتہ روز لاہور کے شاپنگ سینٹر اچھرہ میں ایک خاتون کو مذہبی توہین کی بناء پہ عوامی ہجوم کی نفرت کا سامنے کرنے والے واقعہ نے چونکا دیا۔عوام کی جہالت اور حماقت سخت فکر انگیز بات ہے۔ذرا ایک منٹ کے لیے تصور کریں کہ آپ یا آپ کی کوئی خاتون شاپنگ کرنے بازار جائے اور اچانک اسے یہ احساس ہو کہ وہ ایک بپھرے ہوئے ہجوم میں گھر گئی ہے جو شائید اسکی جان و مال اور عزت کے لیے خطرناک ثابت ہو اس وقت کیا حالت ہو گی ایسی خاتون کی جس کا کوئی جرم بھی نہیں۔جس خاتون کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا ہے انہوں ن کبھی ایسا سوچا بھی نہ ہو گا کہ ایک دن ایسی خطرناک صورتحال میں بھی گھر سکتی ہیں۔
ایسے مواقع پر تو اکثر لوگوں کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا جاتا ہے اور یہی وہ کمزور لمحات ہوتے ہیں جب انسان دشمن کا شکار بنتا ہے۔مگر اس وقت شہر بانو کسی روشن چراغ کی طرح ہجوم کو چیرتی ہوئی نمودار ہوئی اور اس بے قصور اور خوفزدہ خاتون کو نہائیت حفاظت سے اپنے حصار میں تھام کر انہیں ہجوم سے باہر نکال لیا۔ان کی وڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ ایک عورت ہو کر کتنی بہادری کے ساتھ مشتعل ہجوم کے ساتھ مخاطب تھیں۔ایسے حالات میں نردوں کے بھی چھکے چھوٹ جاتے ہیں اور پولیس بھی آسانی سے مشتعل ہجوم کو قابو نہیں کر سکتی۔لیکن شہر بانو نے بجائے ہجوم کو ڈانٹنے کے اسکا اعتماد حاصل کیا اور جائے وقوعہ سے نشانہ بننے والی خاتون کو وہاں سے نکال کر لے گئیں۔اس طرح ایک دلخراش واقعہ وقوع پذیر ہوتے ہوتے رہ گیا۔
اگر آپ اس طرح کے مشتعل عوامی بلووں کی تاریخ چیک کریں آپ کو پتہ چلے گا کہ بیشتر بلوے اس لیے وقوع پذیر ہو جاتے ہیں کہ پولیس وہاں پر بر وقت پہنچ نہیں پاتی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر پولیس ایسے عوامی مشتعل ہجوم کو قابو پانے میں یا بروقت مداخلت میں کیوں ناکام رہتی ہے؟؟ کیا پولیس کو بروقت اطلاع نہیں ملتی؟ جبکہ ہمارا جاسوسی کا زمینی انسانی اور ڈیجیٹل نظام کا دنیا بھر میں کوئی ثانی نہیں۔بلکہ بیشتر وارداتوں سے تو پہلے ہی پولیس کو علم ہوتا ہے کہ یہاں واردات ہونے والی ہے۔اب بتائیں پوری دنیا میں ہماری پولیس کی پھرتی کا کو ئی مقابلہ کر سکتا ہے کیا؟میں نے جب یہ سوال کئی لوگوں سے پوچھا کرتی تھی کہ آخر پولیس کسی عوامی واقعہ میں وادات کے بعد کیوں پہنچتی ہے؟
کسی مشتعل ہجوم کو قابو کیوں نہیں کرتی؟
اگر یہ سب کچھ ہوتا تو جڑانوالہ دہشت گردی کا واقعہ میں کسی کی جان نہ جاتی لاہور میں حاملہ ماں اپنی جان نہ ہارتی۔مجھے اسکا یہ جواب ملا کہ پولیس بھی تو انسان ہی ہیں انہیں بھی اپنی جان پیاری ہوتی ہے۔وہ مشتعل ہجوم سے بھڑ کر اپنی جان داؤ پہ نہیں لگانا چاہتی اسی لیے واقعہ کے بعد آتی ہے۔ ایسی خبریں بھی سننے میں آتی ہیں کہ پولیس مقابلہ میں باہر کیا کرتے ہیں کہاں جاتے ہیں؟ چاہے بیٹا ہو یا بیٹی؟اسکا مطلب یہ نہیں کہ باپ بچوں کی جاسوسی کرے بلکہ ان کے درمیان ایسا اعتماد کا رشتہ ہو کہ اسے اس بات کا علم ہو۔
ایک اچھی ماں کی سادہ سی تعریف یہ ہے کہ ایک اچھی ماں وہ ہے جو بچوں کی مکمل تعلیم و تربیت کرے اور انکی جسمانی اور جذباتی ضروریات کا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ انہیں اچھے برے کی تمیز سکھائے۔اور اپنے بچوں کو زندگی گزارنے کا عملی طریقہ سکھائے۔کب کیا کہنا ہے، کیا کرنا ہے،کس سے نگاہیں جھکا کر بات کرنی ہے اور کس سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنی ہے۔ کہاں پر ادب کرنا ہے اور کہاں بے خوف ہو کر بات کرنی ہے۔ یہ سب گر سکھائے۔مگر ہمارا خاندانی نطام ایسی مائیں نہیں پیدا کر رہا۔مگر یہ وہ کیسے سکھائے گی جب کہ وہ خود عملی طور پہ ایسا نہیں کر رہی۔
بلکہ ہمارا خاندانی نظام ڈرپوک بیوقوف یا پھر جھگڑالو عورتیں پیدا کر رہا ہے جنہیں نہ اپنے فرائض کا پتہ ہے نہ اپنے حقوق کا علم ہے اور نہ اپنی جائز ضروریات کا علم ہے۔جب ایک بیٹے کی ماں ایک بہو تلاش کرنے نکلتی ہے اسے ایک بیوقوف اور بونگی بہو چاہیے ہوتی ہے۔ایک لڑکے کو ایک باحیاء اور شرم و حیاء کا پیکر لڑکی چاہیے جو بہت کم بولے، بہت کم کھائے مگر بہت ذیادہ شرمائے کسی سے بلکہ خود اس سے بھی نظریں نہ ملائے۔مگر وہ خود جہاں مرضی اپنی نگاہیں لڑاتا پھرے اس کے لیے کوئی پابندی نہیں۔جب چاہے بیوی کی بے عزتی کر دے۔مگر بیوی جواب میں بس شرما شرما کر ہوں ہاں ہوں ہاں کرتی رہے۔پھر وہ یہ شکائیت بھی کرتا نظر آتا ہے کہ اسکی بیگم آخر اس قدر اداس کیوں رہتی ہے اسکی کولیگز کی طرح ہر وقت ہنستی کیوں نہیں۔ اسکی اولین خواہش ہوتی ہے کہ بیوی بولے کم مگر ہنسے ذیادہ۔اس قسم کے ماحول میں جہاں ایک بچی بچپن سے ہی اپنی ماں کو اپنے باپ سے ڈرتے دیکھتی ہے بھائیوں کا چچاؤں کا ماموؤں کا رعب سہتی ہے۔آپ کے خیال میں وہ کیسے ایک اچھی ماں بنے گی۔ہمارے معاشرے کی مائیں ڈرپوک اور بزدل ہیں جو اپنے حق کے لیے نہیں لڑ سکتیں۔باپ بھائی اور شوہر ان سے جائداد مین اپنا حق اور شوہر تو حق مہر تک معاف کرا لیتے ہیں۔پھر ہر وقت ہمارے معاشرے میں اچھی ماں بنانے پہ ہی زور دیا جاتا ہے۔اچھا باپ اور اچھا بیٹا اچھا شوہر کیوں نہیں بنایا جاتا۔مردوں کو یہ کورسز کیوں نہیں کروائے جاتے کہ وہ اچھے بیٹے اور اچھے شوہر بنیں؟ انہیں یہ کیوں نہیں سمجھایا جاتا کہ مرد اور عورت کے رشتے کی اصل بنیاد ہی آپس کا اعتماد رشتوں کا احترام اور جائز طریقے سے جذبات کا اظہار ہی ہے۔آج ہمارے معاشرے میں عدالتوں میں کتنے لا تعداد علیحدگی کے کیسز رجسٹر ہیں۔اس لیے کہ ہمارے ہاں یہ سکھایا ہی نہیں جاتا کہ رشتہ کیسے نبھانا ہے۔فیملی میں کیسے رہنا ہے؟بلکہ یہ بتایا جاتا ہے کہ میاں کو کیسے پٹانا ہے؟ سسرالی رشتوں کو کیسے لڑانا ہے اور ساس کو کیسے نیچا دکھانا ہے۔شادی کی تیاری جہیز کی خرید داری اور شو بازی کے انتظامات تو مہینوں پہلے شروع کر دیے جاتے ہیں مگر بیٹی یا بیٹے کی تربیت پر کچھ خرچ کرنا بالکل جائز نہیں سمجھا جاتا۔اگر ان سے کوئی چند ہزار روپؤں کا کورس ہی سیکھنے کے لیے کہا جائے تو لوگ کنی کتراتے ہیں جبکہ شادی کے لیے بے دریغ لاکھوں روپئے لٹا دیے جاتے ہیں۔
جب بات آتی ہے اچھی ماؤں کی تو وہیں تربیت بھی آ جاتی ہے۔شہر بانو جیسے بیٹیاں بھی تبھی پیدا ہوتی ہیں جب اسے اچھا ماحول اور تربیت ملی ہو چاہے اسکا تعلق کسی بھی اکنامک کلاس سے ہو۔اب چونکہ ہمیں بھی ایک خاتون وزیر اعلیٰ مل گئی ہیں اس لیے یہ پر زور اپیل کی جاتی ہے کہ وہ تمام پولیس چوکیوں پر خواتین اہلکاروں کو شہر بانو اور ان جیسی دیگر بہادر خواتین کی تربیت کریں اور وہاں خواتین کو سربراہ مقرر کیا جائے۔کیونکہ مرد بیچارے کب سے اپنی زمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔اب خواتین کو بھی موقع ملنا چاہیے۔یہاں تک کہ مرد بھی شہر بانو جیسے بہادر بن جائیں۔
اصل لمحہء فکریہ یہ کہ پاکستان میں روز بروز مشتعل ہجوم کی دہشتگردی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔اس کے اصل
محرکات کا پتہ چلانے اور سد باب کے لیے عوامی سطح کی تحقیقات چاہیے جو کہ ہمارے بس کی بات نہیں کیونکہ پاکستانی لوگ تحقیق کرنے کے عادی ہی نہیں۔اکثریت سنی سنائی باتوں پہ کان دھرنے کی عادی ہے۔
جبکہ حدیث پاک ہے کہ کسی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ سنی سنائی بات پر بغیر تحقیق کے یقین کر لے۔
یعنی ہمارا دین بھی ہمیں تحقیق کی ترغیب دیتا ہے۔مگر دین تو ہم نے تاقچوں میں بند کر کے رکھ چھوڑا ہے یا پھر مسجدوں میں پابند کر دیا ہے۔بس دین کو تو خاص خاص مواقع پہ ہی یاد کیا جاتا ہے عید بقرہ عید کی طرح۔
درحقیقت ہجوم اور مشتعل ہجوم کی ایک خاص نفسیاتی کیفیت ہوتی ہے۔اس میں جو عوامل کارفرماء ہوتے ہیں ان میں لا علمی اور جہالت ٹاپ پر ہے اس کے بعد آتی ہے افواہ، پھر افواہ کا جنگل کی آگ کی طرح ہر طرف پھیل جانا، تماش بین لوگوں کا اکٹھا ہونا۔یہ ہجوم دس پندرہ افراد سے لے کر سینکڑوں کی تعداد تک پہنچ سکتا ہے۔اگر کنٹرول نہ کیا جائے۔اس میں افراد کی تعداد وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی جاتی ہے۔اس کام میں بہت کم وقت لگتا ہے یعنی بمشکل آدھ گھنٹے سے ایک گھنٹہ تک کا ٹائم۔
اب مشتعل ہجوم کے بننے کی عمومی وجوہات کیا ہوتی ہیں۔مشتعل ہجوم کو کسی منصوبہ کے تحت بھی تشکیل دیا جا سکتا ہے۔یہ کسی کی ذاتی دشمنی کا شاخسانہ بھی ہو سکتا ہے جیسا کہ عام طور سے ہمارے دیہی علاقوں اورگلی محلوں میں ہوتا ہے۔جبکہ اچانک بھی مشتعل ہجوم بنایا جا سکتا ہے۔ہجوم چاہے منصوبہ کے تحت ہو یا اچانک بن جائے اسکا کوئی نہ کوئی لیڈر ضرور ہوتا ہے جو کہ لوگوں کو اکٹھا کرتا ہے۔یہ لیڈر تجربہ کار بھی ہو سکتا ہے اور نا تجربہ کار بھی اسکی تلاش بہت مشکل ہوتی ہے۔عام طور سے وہ ایسے مواقع پر اپنا کام کر کے فرار ہو جاتا ہے۔اسے مانیٹرنگ کیمرے سے چیک کیا جا سکتا ہے۔وہی ہجوم کو ظلم و جبر پر اکساتا ہے۔ہجوم کی اکثریت، جاہل، محروم، غرباء اور جرائم پیشہ افراد پہ مشتمل ہوتی ہے۔اسی لیے انہیں کنٹرول کرنا تو دور کی بات ہے سمجھانا بھی مشکل ہوتا ہے۔اس وقت اس مجمع کی مثال ایک بہت بڑے جسم کی ہوتی ہے جس میں ہر جسم کے اندر ایک تباہ کن آگ کے شعلے بھڑک رہے ہوتے ہیں۔اللہ ہر مومن مسلمان کو ایسی صورتحال سے بچائے۔ آمین
اس لیے ایسے مجمع کو جو عام طور سے کنٹرول کرتا ہے وہ خود بھی اسکا نشانہ بن جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایسے مواقع پر بڑی بڑی سیکورٹی بھی کام نہیں آتی۔ایسے موقع پر اگر کوئی بدنام شخص صورتحال کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرے یا پھر مشتعل مجمع کو ڈرایا دھمکائے جانے سے آگ کے شعلے مزید بھڑکنے کا خدشہ ہوتا ہے۔یہ شہر بانو کی خوشقسمتی اور خوبصورت حکمت عملی تھی کہ انہوں نے بہت نرم لحجے اور تحکمانہ انداز سے مجمع کا اعتماد حاصل کیا۔انکا غصہ کم کیااور کامیابی سے ان خاتون کو بچانے میں کامیاب ہو گئیں۔اگر شہر بانو مجمع کو ڈانٹتیں انہیں دھمکاتیں اپنی طاقت اور عہدے کو استعمال کرتیں پولیس لاٹھی چارج کرتی شیلنگ کرتی۔مجمع منتشر تو ہو جاتا مگر بہت سے جانی و مالی نقصان کے بعد۔شکر الحمد اللہ اللہ تبارک نے میری قوم کو اور لاہور شہر کو ایک داناء اور بہادر عورت کی حکمت عملی سے بچا لیا۔ اس بات پر ہم سب پاکستانی جتنا شکر ادا کریں کم ہے۔خاص طور
سے اہل لاہور کو تو دو دو نفل شکرانے کے پڑھنے چاہیے۔
اب تھوڑی سے بات ان خاتون کی بھی ہو جائے کہ ان سے کہاں غلطی ہوئی۔جہاں تک میرے علم میں ہے اچھرہ شاپنگ سینٹر کا شمار لاہور کے پرانے بازاروں میں ہوتا ہے۔یہاں ہر طرح کے لوگوں کی بھیڑ ہوتی ہے جس میں مزدور طبقہ جو روزی کی تلاش میں ہوتا ہے وہ بھی ذیادہ ہوتے ہیں۔یہ لوگ لاہور کے مضافاتی علاقوں سے روزی روٹی کمانے کے لیے لاہور شہر کا رخ کرتے ہیں۔انہیں کبھی روزی ملتی ہے اور کبھی نہیں یہ اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے کبھی کبھی بھوکے بھی رہ لیتے ہیں۔آ پ کو پتہ ہے کہ بھوک اور مفلسی انسان میں نہ صرف سوچنے سمجھنے کی صلاحتیں مفلوج کر دیتی ہے بلکہ انہیں رنج و غم میں بھی مبتلاء کر دیتی ہے۔وہ دولتمند اور کھاتے پیتے لوگوں کو نہ صرف حریصانہ بلکہ انتہائی دشمنی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔جب یہ لوگ بھوکے ہوتے ہیں تو انکا بس نہیں چلتا کہ یہ ان پیسے والوں کو کچا کھا جائیں۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ یہاں رش ذیادہ اور جگہ کم ہوتی ہے۔اس لیے خرید دار خواتین کوشش کریں کہ لباس کے انتخاب میں بہت احتیاط کریں۔ویسے بھی ہر موقع کی مناسبت سے لباس کا بھی ایک کوڈ ہوتا ہے۔جیسے سفر کا لباس،پارٹی ڈریس یا میٹنگ ڈریس وغیرہ۔یہاں یورپ اور اسکینڈ ینیویا میں تو خواتین بازاروں میں بالکل عام لباس میں گھومتی نظر آتی ہیں۔بلکہ پاکستانی لباس بہت خوبصورت ہوتا ہے اور خواتین فوراً مرکز نگاہ بن جاتی ہیں۔ اس لیے ہم لوگ شاپنگ پر مقامی لباس ہی استعمال کرتی ہیں۔صرف لاہور ہی نہیں بلکہ تمام پاکستانی خواتین سے ایک مودبانہ گزارش ہے کہ پلیز آپ لوگ شاپنگ سینٹرز اور مالز پر ایسے لباس پہننے سے گریز کریں جو آپ کو مرکز نگاہ بنا دیں۔دوسرے لباس پرکسی بھی زبان میں کچھ بھی لکھا ہوا ہو ایسا لباس نہ پہنیں۔کوئی اسکا مطلب کچھ بھی نکال سکتا ہے۔
آخر میں پاکستان کی خاتون وزیر اعلی مریم نواز کو انکی وزارت کی مبارکباد اور امید ہے کہ وہ ملک میں خواتین کی نہ صرف حفاظت بلکہ ترقی کا بھی خاص خیال رکھیں گی۔