تحریر ،شازیہ عندلیب صرف عیدا الفطر کے موقع پر ہی مسلمان قوم مختلف دنوں میں یہ تہوار منایا کرتی تھی۔ لیکن اب عید الاضحیٰ بھی اسی انداز سے منائی گئی ہے۔عیدا لفطر مختلف دنوں میں منانے کی وجہ یہ ہے کہ نیا چاند نظر آنا ضروری ہے لہٰذا جسے جسے اور جہاں جہاں نیا چاند نظر آ جاتا وہاں وہاں عید منا لی جاتی ہے ۔اپنا اپنا چاند اور اپنی اپنی عید ۔ یہاں تک کہ ایک ہی ملک اور صوبے میں لوگ ایک ہی تہوار مختلف دنوں میں مناتے ہیں۔اس بات پر بہت بحث ہو چکی ہے کئی دانشور اور سائنسدان اس کا حل بتا چکے ہیں مگر ہمارے ارباب اختیار اس پر عمل کر کے نہیں دیتے ۔ ااس کام کے لیے روئیت ہلال کیمیٹی بھی تشکیل دی جاتی ہے۔روئیت ہلال کے سربراہ اپنی ٹیم کے ساتھ دور بین سے نیا چاند ملاحظہ کرتے اور یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ اکثر دور بین سے چاند ملاحظہ کرنے والے حضرت کی دور کی نظر کمزور ہوا کرتی ہے ۔لیکن شائید روئیت ہلال کمیٹی میں انکی ملازمت مستقل ہے۔ اس لیے ہر سال انہی کی تجربہ کار نظروں سے پوری قوم استفادہ کرتی ہے۔کیونکہ انہیں نیا چاند دیکھنے کا ذیادہ تجربہ ہے۔لہٰذا ہماری حکومت نیا چاند دیکھنے کے لیے ہمیشہ پرانے لوگوں کو ہی اہمیت دیتی چلی آئی ہے۔ان کے تجربہ کی مشتاقی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر کبھی شو مئی قسمت گہرے بادلوں یا برسات کی وجہ سے چاند کسی کو بھی نظر نہ آئے مگر انہیںضرور نظر آ جاتا ہے ۔آخر تجربہ ہے نا!!!۔۔۔نا تجر کار لوگوں کو تو چودھویں کا چاند نظر نہیں آتا تو نیا چاند کہاں سے نظر آئے گا۔جیسے کسی شاعر کو چاندروٹی کی مانند نظر آتا تھا یا پھر کوکنگ شیف ٹی وی والی آپا زبیدہ چاند پہ روٹیاں پکاتی نظر آتی ہوں گی۔خیر اپنا اپنا تجربہ اور اپنی اپنی نظر ۔جس کی نگاہوں میں نیا چاند سمایا ہے وہ تو چاند کو ڈھونڈکے دکھا دیں گے چاہے آدھی رات کو ہی مل جائے !!! اس کے علاوہ نیا چاند ڈھونڈنے کے لیے سابقہ تجربہ لازمی کوالیفیکیشن نہیں ہے ۔اگر آپ پاکستان کے کسی دور دراز علاقے کے باسی ہیںتب بھی ٹھیک ہے۔آپ عید کا چاند دیکھ کر وطن عزیز کو عید کی خوشیوں سے ہمکنار کر سکتے ہیں۔کیونکہ اکثر ایسا بھی ہوا ہے کہ سارے چاند کو ڈھونڈ ڈھونڈکر تھک گئے اور وہ کسی شریر محبوبہ کی طرح بدلیوں کی اوٹ میں چھپ گیا۔حتیٰ کہ سارے ملک کا آسمان چھان مارا ۔مگر یہ نیا نوخیز چاند مرکزی روئیت ہلال کمیٹی کی نگاہوں سے چھپتا چھپاتا کسی سرحدی علاقے میں جا نکلتا اور کسی سرحدی بھائی کی غالباً آدھی رات کو آنکھ کھلی تو اچانک اس نے نیا چاند دیکھ لیا۔دو تین گواہ اکٹھے کیے ہم وطنوں کو چاند نکلنے کی خوش خبری سنائی اور بس عید ہو گئی۔اب اس بات کی تحقیق کون کرے کہ نیا چاند جاگتے میں دیکھا تھا یا سوتے میں۔آجکل کے حکومتی سیانے کہتے ہیں چاند تو چاند ہوتا ہے چاہے جب بھی نکلے۔ پھر سحری کے وقت مسجدوں میں اعلان ہوتا ہے کہ ٹنڈو جام تماچی،درہء خیبر وادیء کاغان یا چیچہ وطنی کے جنگلات سے اطلاع ملی ہے کہ ایک بھائی کو چاند نظر آ گیا ہے لہٰذا اب عید ہو گی۔ہر طرف ایک شور و غوغا ہوتا ہے پٹاخے شرلیاں بجتی ہیں۔کچھ لوگ عید مناتے ہیں کچھ صرف منہ بناتے ہیں کہ انہیں اس بات کا یقین نہیں ہوتا کہ چاند واقعی نکلا ہے!!!ہر کوئی اپنی مرضی سے عید مناتا اپنی اپنی عید اور اپنا اپنا چاند !!! یہ تو چھوٹی عید کے مسائل تھے لیکن بڑی عید پر ایسے مسائل کاسامنا پرانے زمانے میں کبھی نہیں ہوا تھا۔یعنی کہ نان ڈیجیٹل دور میں۔لیکن اب اس نئے ڈیجیٹل دور میں یہ نیا مسلہء کھڑا ہو گیا ہے۔ مسلہء اس لیے نہیں تھا کہ بڑی عید تو چاند کی دس تاریخ کو منائی جاتی تھی۔لیکن اس دفعہ بڑی عید بھی مختلف دنوں میں منائی گئی۔حج جو ہمیشہ سے نو ذلحج کو ہوتا تھا اس مرتبہ آٹھ ذی الحج کو کیا گیا ۔تاکہ جمعہ کی فضیلت شامل ہو جائے اور یہ حج حج اکبر قرار دیا جا سکے ۔کیا اس طرح زبردستی ثواب حاصل کیا جا سکتا ہے؟؟؟یہ بات تو کوئی اسلامی اسکالر ہی بتا سکتے ہیں۔ پاکستان میں تین دن عید منائی گئی جبکہ ناروے میں دو دن موس اور فریڈرکستاد میں ہفتے کو اور اوسلو میں اتوار کو عید قربان منائی گئی۔باقی سب قوموں پر مسلمانوں کے اتحاد یکجہتی اورڈسپلن کا کیا اثر ہوا ہو گا یہ آپ خود سوچیں۔ اس سلسلے میںاور لوگ بھی اپنی رائے اور تاثرات کا اظہار کریں کہ بڑی عید اس طرح منانا کیسا لگا؟؟