گذشتہ دنوں بحیرہء روم میں ہونے والے افسوسناک حادثے کے بارے میں بچ جانے والے مسافروں نے اندوہناک انکشافات کیے۔حادثہ میں بچ جانے والے ایک مسافر نے انکشاف کیا کہ یہ کشتی کپتان نے جان بوجھ کر ڈبوئی تھی۔اس کے علاوہ اس نے مسافروں کے ساتھ بد سلوکی بھی کی ۔
اتوار کے روز بحیرہء روم میں کشتی کے حادثے میں لیبیاء سے آنے والے مسافروں میں سے صرف اٹھائیس مسافر بچائے جا سکے جبکہ آٹھ سو افراد جاں بحق ہو گئے۔
بچ جانے والے بیشتر مسافروں نے کشتی کے کپتان کی بد سلوکی کی شکائیت کی ہے۔ان مسافروں کوپہلے ایک ربڑکی کشتی میں بٹھایا گیا پھر مچھلیاں پکڑنے والی کشتیوں میں منتقل کیا گیا۔جبکہ ربڑ کی کشتی میں ایک شخص کو بلا اجازت بیٹھنے کے جرم میں مار ڈالا گیا۔
ایک سولہ سالہ لڑکے نے کہا کہ وہ ناروے اپنی آنٹی سے ملنے آنا چاہتا تھا۔اس لڑکے کو اٹلی کے شہر سسلی کے پناہ گزین کیمپ میں رکھا گیا ہے۔اس نے کہا کہ وہ صومالیہ سے لییاسن انیس سو چودہ میں سوڈان کے صحرائوں کو عبور کر کے پہنچا۔اس کے والدین نے انسانی اسمگلروں کو اسے پہنچانے کے لیے رقم ادا کی۔لیبیاء کی سرحد پر اسے نو ماہ تک ایک قیدی کی حیثیت سے رکھا گیا۔پھر ا سکے والدین نے مزید ادائیگی کی تب اسے اور آگے لے جا یا گیا۔لیبیاء میں وہ ایک کھیت میں دوسرے سینکڑوں مزدوروں کے ساتھ کام کرتا تھا۔وہاں سے ایک مچھلیاں پکڑنے والی کشتی میں اسے لے جا یاگیا جو کہ ڈوب گئی۔
جبکہ کیپٹن محمد علی مالک نے جان بوجھ کر کشتی ڈبو دی۔اطالوی پولیس کے مطابق کپتان نے اس کشتی کو ایک بحری جہاز سے تین مرتبہ ٹکریا تاکہ کشتی کے مسافرڈوب جائیں۔جبکہ ستائیس سالہ محمد مالک نے انکار کیا ہے کہ وہ کیپٹن تھا س کے مطابق وہ کشتی کا مسافرتھا۔
NTB/UFN