اسلام فوبیا۔

مظفر اعجاز۔

دنیا بھر میں اسلام فوبیا کا شکار لوگوں کو کچھ ادارے اپنے مقاصد کے لئے مشتعل کر کے بے وقوف بنا رہے ہیں۔کیونکہ جو سودا زیادہ بک رہا ہو لوگ وہی بیچتے ہیں۔آج کل اسلام سے نفرت کا سودا بک رہا ہے۔ان کا کام آزادی اظہار نہیں ، ان کو عیسائیت سے بھی محبت نہیں ان کی ساری سرگرمیوں کا مرکز و محور ڈالر و دولت ہے۔ گاڑ لینڈ ٹیکساس میں امریکن فریڈم ڈیفنس انی شی ایٹو  AFDI نے پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کے لئے کارٹون بنانے کا مقابلہ منعقد کیا تھا۔ مسلسل میڈیا کی مرکزی خبروں کا حصہ بنا ہوا ہے۔ اسے میڈیا کی کوریج کیوں چاہیئے؟میڈیا میں آنے سے اسلام سے ان کی نفرت کا اظہار ہو جائے گا۔یہ گروپ جس کا نام AFDI ہے اس کے ارکان پورے امریکا میں مسلمانوں اور اسلام کے خلاف آزادی اظہار کے نام پر نفرت انگیز تقاریر کرتے ہیں۔اس کے انہوں نے ٹیکساس میں مقابلہ منعقد کرنے کا اعلان کیا تھا۔مقابلے میں کامیاب کارٹونسٹ کو 10 ہزار ڈالر ملے تھے لیکن اس مقابلے پر حملہ ہو گیا۔اس گروپ کو مقابلے پر حملے کا بھی فائدہ ہوا اور اب وہ پہلے سے زیادہ ڈالر جمع کر رہا ہے۔

اس ادارے کی نفرت انگیز مہم سے اس کو ہونے والے فائدے کا ندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ2012 کے ٹیکس گوشوارے کے مطابق ادارے کو صرف3ہزار 721 ڈالر وصول ہوئے اور انتہائی مشتعل صدر پامیلا گیلر نے کوئی تنخواہ وصول نہیں کی کیونکہ ادارے کی آمدنی نہیں تھی لیکن 2013 میں اس گروپ کی آمدنی کو جیسے پر لگ گئے جن ادارے کو گزشتہ سال ۳ ہزار ڈالر ملے تھے اسلام کے خلاف پروپیگینڈہ کر نے سے اس کی آمدنی میں15 فیصد سے زیادہ اضافہ ہو گیا اور 2013 میں5 لاکھ 49 ہزار 288 ڈالر آمدنی ہوئی اور آزادی اظہار کے لئے رضا کارانہ طور پر کام کرنے والی صدر پامیلا گیلر نے صرف 2لاکھ 10 ہزار 87 ڈالر تنخواہ وصول کی۔ کویا پامیلا گیلر ہفتے میں صرف دس  گھنٹے کسم کے عوض یہ تنخواہ وصول کی یعنی سال بھر میں 520 گھنٹے کام کیا اس طرح پامیلا گیلر کی فی گھنٹہ آمدنی405 ڈالر فی گھنٹہ رہی۔

امریکا میں عوام کی خدمت کرنے والے کمپیوٹر کی دنیا سے وابستہ لوگ، ناسا میں کام کرنے والے سائنسدان، اسکال، ادیب،تاجر کوئی 405 ڈٖالر فی گھنٹہ آمدنی کا ریکارڈ نہیں رکھتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کو اس آمدنی پر ٹیکس سے استثنا ملا ہوا ہےکہ وہ آزادی اظہار کا دفاع کر رہے ہیں اور ان کو دھمکیاں ملتی ہیں۔ اس مقصد کے لئے میڈیا بھی ان کا ساتھ دیتا ہے اور فوج نے بھی پہرہ دیا کہ کہیں آزادی اظہار کو ٹھیس نہ لگ جائے لیکن امریکی میڈیا، کم علم عوام اور حکومت کو استعمال کرنے والا یہ گروہ لاکھوں ڈالر لے اڑا۔

جس روز سے  AFDI کے مقابلے پر حملہ ہواہےوہ مسلسل میڈیا پر ہےاور اس کا فائدہ 2015 کے ٹیکس گوشوارے سے پتا چلے گا۔صرف پامیلا کیلر ہی رقم اینٹنے میں مصروف نہیں بلکہ ادارے کے نائب صدر رابرٹ اسپنسرکو بھی 29 ہزار 461 ڈالر ادا کئے گئے جبکہ میڈیا پر اشتعال انگیزی کا فائدہ یہ ہوا کہ ڈیوڈ ہورووٹرز فریڈم سینٹر نے اس نفرت انگیز مہم کے لئے بلاگ لکھنے کی خدمات پر 1 لاکھ 87 ہزار 287 ڈالر مزید دیئے اس طرح 2013 میں اسپنسر کی آمدنی 2لاکھ 15 ہزار 498 ڈالر بن گئی۔آزادی اظہار کے لئے کام کرنے والے دوسرے مخلص بورڈ ممبرزجیمز لیفرٹی، پامیلا ہال اور رچرڈ ڈیوس کوٹکا بھی نہین دیا گیا۔سارا مال بڑوں نے ہڑپ کر لیایا انتظامی امور میں لگا دیا گیا۔ AFDI جس نام پر پورے امریکا میں متحرک ہے اور ٹیکساس میں جو حملہ ہوا ہے۔ اس نے اس کی مقبولیت کا گراف اور بڑھا دیا ہے۔اس بات پر تو دو رائے ہو سکتی ہیں کہ  AFDI کی مہم آزادی اظہار کی جنگ ہے یا نہیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس گروپ کے لیڈرز کو بہت بڑی بڑی رقوم ملتی ہیں یہ تو وہ رقوم ہیں جن کا ٹیکس گوشوارے میں ذکر ہے اور جو رقوم ان کو تحائف کی صورت میں ملی ہیں اور مختلف سفری اخراجات کی صورت میں ان کا کوئی حساب نہیں ہے۔ جب سے یہ نفرت انگیز مہم پامیلاگیر نے اپنے ہاتھ میں لی ہے وہ پورے امریکہ میں مختلف اسلام فوبیا گروپس کی دعوت پر دورے کرتی ہے اور ان کے خرچ پر اعلیٰ ہوٹلوں میں قیام اور آمدورفت کے اخراجات وصول کرتی ہے۔ عام سادہ لوح امریکی اسے آزادی اظہار کی جنگ سمجھ رہا ہے بلکل اسی طرح جس طرح دنیا بھر میں امریکی حکومت، یہودی اسلحہ تاجر اور دوسرے سوداگر اسلحہ فروخت کررہے ہیں وہ امن کے لیے ساری دنیا میں جنگ چھیڑ رہے ہیں اور سادہ لوح لوگ انہیں خوب فنڈز دیتے ہیں اپنا ٹیکس ’’امن‘‘ کی خاطر خرچ کرنے کی اجازت دیتے ہیں ۔ ہزاروں امریکی جوانوں کو مروادیتے ہیں اور امن کی خاطر قربانی قرار دیتے ہیں۔ یقین کریں خلیج کی پہلی جنگ، دوسری جنگ، افغانستان کی جنگ ان تمام جنگوں ان تمام جنگوں کے سوداگر تیل کی کمپنیوں کے مالک تھے یا اسلحہ کے بڑے بڑے ڈیلر، یہی لوگ کبھی کلنٹن، کبھی بش اورکبھی اوباما کو اقتدار میں لاتے ہیں۔ انتخابی مہم ان کی بھی پامیلاگیلر کی طرح نفرت انگیز ہوتی ہے جیسے اوباما نے پہلی صدارتی مہم چلائی تھی کہ مکہ اور مدینہ منورہ پر حملہ کروں گا، اسلام کا نام مٹادوں گا۔ لیکن صدر بننے کے بعد وہ جنگوں کا اسپانسر بن گیا اور اسلام کو امریکہ کی حقیقت قرار دینے لگا۔ یہ سارے نفرت کے دعوے صرف فنڈز اکھٹا کرنے اور اور ڈالروں کے لیے ہوتے ہیں۔ رفتہ رفتہ امریکیوں میں اسلام سے نفرت بڑھائی جارہی ہے جس کا خمیازہ خود امریکی معاشرے کو ہوگا کیونکہ مسلمان اب امریکا میں محض لاکھ دو لکھ نہیں ہیں بلکہ اتنی بڑی تعداد میں ہیں کہ نہ تو ان سب کو قتل کیا جاسکتا ہے اور نہ انہیں امریکہ سے نکالا جاسکتا ہے۔ ہر عمل کا رد عمل لازمی ہوگا۔ لہٰذا  جتنی نفرت پھیلاؤ گے اتنا جواب پاؤ گے۔ کہا جا رہا ہے کہ ٹیکساس میں حملہ مسلمانوں نے مشتعل ہو کر کیا ہے۔ یہ ایک پہلو ضرور ہے لیکن اس بات کا بہت ذیادہ امکان ہے کہ یہ حملہ بھی پامیلاگیلر یا ان کی ٹیم نے خود کرایا ہو تا کہ نفرت کو مزید ہوا ملے اور ان کے فنڈزمیں اضافہ ہو۔

ہمیں نہیں معلوم سادہ لوح امریکی کب اپنے حکمرانوں کی چالوں کو سمجھیں گے اور کب نفرت کے ان سوداگروں کے ہتھکنڈوں کو سمجھیں گے جو انھیں نفرت کی آگ کا ایندھن بنا کر خود لاکھوں ڈالر بٹوررہے ہیں۔اس وقت دنیا کا جو سودا سب سے ذیادہ تیز رفتاری سے بکتا ہے وہ نفرت ہے اور اس میں بھی سب سے زیادہ بکنے والا سودا اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف نفرت ہے یہ لوگ نفرت کو ہوا دیتے ہیں اور ڈالروں سے جیبیں بھرتے ہیں۔ یہ صرف ایک گروپ کا ریکارڈ ہے اگر دوسرے گروپوں  کا احوال دیکھیں تو سارے یہی دھندا کرتے نظر آئیں گے۔

اپنا تبصرہ لکھیں