نارویجن کھانوں سے نطمئن نہ ہونے کی وجہ سے شامی پناہ گزینوں کے ایک وفد نے ہوٹل اسٹرینڈ میں نارویجن حکام سے ملاقات کی۔شامی وفد کے اراکین نے کہا کہ انہیں جو خوراک دی جا رہی ہے وہ ان سے طابقت نہیں رکھتی۔مہاجرین کو دن میں تین مرتبہ کھانا دیا جاتا ہے ۔جبکہ ہر روز ایک جیسے ناشتے سے تنگ آ گئے ہیں ۔ناشتے میں روزانہ ایک انڈا سلائس اور پنیر ہوتا ہے۔انہوں نے نارویجن حکام سے کہا کہ انہیں ایک ایسا باورچی مہیاء کیا جو ان کی پسند کے کھانے تیار کرے۔ایک شامی شخص دادا نے کہا کہ وہ خود تو نارویجن کچن کے نا پسندییدہ کھانوں کو برداشت کر سکتے ہیں لیکن عورتیں اور بچے نہیں۔انہوں نے کہ اکہ انہیں ایک سیب چار پانچ لوگوں میں بانٹنا پڑتا ہے۔
اسٹریڈ ہوٹل کے مینیجر یاقوبسن نے اس بات پر افسوس کیا کہ نارویجن خوران مہاجروں کو پسند نہیں آئی۔ہوٹل مینیجر نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ اس کا ذئقہ انہیں اچھا نہ لگا ہو لیکن یہ خوراک غذائیت سے بھرپورہے۔اس کے علاوہ یہ بات کہ ایک سیب پانچ افراد نے کھیا غلط ہے کیونکہ میں نے خود کافی مقدار میں پھل بانٹے ہیں۔البتہ ہم یہاں کسی شامی کھانے پکانے والے باورچی کا بندوبست کریں گے۔یہاں پناہ گزینوں کو مہمانوں کی طرح رکھا گیا ہے۔مینیجر اس بات پر خوش تھا کہ ماہ نومبر میں پہلی مرتبہ اس کا ہوٹل بھر گیا ہے۔
NTB/UFN