اوسلو میں مسلم کمیونٹی کی خواتین پرگھریلو تشدد 

اوسلو پولیس نے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ اوسلو میں مسلم کمیونٹی کی خواتین اپنے ساتھ ہونے والے تشدد اور بد سلوکی کے واقعات دوسری خواتین کی نسبت کم رپورٹ کرتی ہیں۔ اسکی وجہ خواتین میں اپنے حقوق سے لا علمی اور کم خود اعتمادی بتائی گئی ہے۔
ہر ماہ اوسلو کے دارالامان میں ایسی دو سو کے لگ بھگ عورتیں لائی جاتی ہیں جو کہ گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ان میں سے پچاس فیصد عورتوں کا تعلق مسلم کمیونٹی سے ہوتا ہے جو کہ اپنے شوہروں کے ناروا سلوک کا شکار ہوتی ہیں۔مگر ہر چار میں سے صرف ایک عورت ہی پولیس کو رپورٹ لکھواتی ہے۔
پولیس مینیجنگ ڈائیریکٹر انگر لیسے Inger-Lise W. Larsen. کا کہنا ہے کہ ان خواتین کے ساتھ انکے شوہر نفرت انگیز اور پر تشدد سلوک کرتے ہیں۔اوسلو پولیس ایسے تشدد آمیز واقعات کا ریکارڈ نہیں رکھتی جب ان کا تعلق کسی مذہبی گروپ سے ہو۔تاہم یہ ایک بہت بڑا نا معلوم جرم ہے جس کی کوئی حد نہیں۔
کئی کمیونٹیز اس بات سے لا علم ہیں کہ خاندان کے اندر تشدد کے واقعات ایک جرم ہیں۔کرئم برانچ کی کاری جینKari Janne Lid NRK. نے نیوز چینل این آر کے سے گفتگو کے دوران بتایا کہ بہت کم مسلمان خواتین تشدد کے واقعات پولیس کو رجسٹر کرواتی ہیں۔
ایل آئی این تنظیم کی قانونی مشیر نساء سعید نے کہا کہ کئی معاشروں میں عزت اور اناء کا کلچر ابھی تک موجود ہے۔نساء سعید عورتوں کی تنظیم میں نارویجن معاشرے میں اقلیتی گروہوں میں مرد اورعورت میں برابری کے حقوق پر کام کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایسے واقعات ایک خاندان کے لیے بہت پریشان کن ثابت ہوتے ہیں اور اس کی وجہ سے خاندان تباہ ہو سکتا ہے۔
Source: NTB scanpix/ UFۂٗ

اپنا تبصرہ لکھیں