(شیخ خالد زاہد)
مغرب میں ہونے والی زیادتیوں پر وہ لوگ بھی تبصرہ کرنے سے گریز کرتے ہیں جن کیساتھ زیادتی ہوئی ہوتی ہے یا پھر ان کا بیانیہ اس بات کو خاطر میں رکھتے ہوئے دیا جاتا ہے کہ ہمارا ملک ہمارا معاشرہ ہمارے ساتھ ہونے والی زیادتی سے کہیں گنا زیادہ اہم ہے ۔ اس عمل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کو پورے معاشرے کی بدنامی کا باعث بنانے کیلئے تیار نہیں ہوتے ۔یہ بھی ممکن ہوسکتا ہے کہ وہ ہونے والی زیادتی کا خود کو حقدار سمجھتے ہوں اور اپنی کوتاہیوں اور نافرمانیوں کی سزا سمجھ کر خاموشی سے قبول کرلیتے ہوں، یا اس سے مماثلت رکھتی ہوئی بات کہیں ان کے لاشعور میں رہتی ہو۔ وہ حق تلفی کرچکے ہوتے ہیں (بطور فرد یا پھر بطور قوم )جسکی وجہ سے وہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کو اپنی کی ہوئی حق تلفی کا ازالہ سمجھ کر خاموشی سے برداشت کرلیتے ہیں۔ شائد جو لوگ سوچتے اور سمجھتے ہیں ان میں برداشت کا مادہ زیادہ ہوتا ہے ۔ اس سے کم از کم یہ تو ہوتا ہے کہ معاشرے میں بگاڑ پیدا ہونے کی سعی رائیگاں چلی جاتی ہے ۔ دور حاضر میں علم ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے سے کہیں زیادہ دشمن کی چالوں کو ناکام بنانے کیلئے ضروری ہے ۔ جو لوگ بین الاقوامی میڈیا سے جڑے رہتے ہیں انہیں معلوم ہے آئے دن کہیں نا کہیں کوئی ایسا واقع ضرور ہوتا ہے جس میں انسانی جانیں بھی جاتی ہیں اور دیگر نقصانات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے مگر یہ سب کچھ کرنے والا غیر معمولی فرد نکلتا ہے ، غیر معمولی کا مطلب ایبنارمل بھی لے سکتے ہیں۔ ہمارا میڈیا کس کی زبان بولتا ہے اس بارے میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ چھوٹا منہ اور بڑی بات۔ ترقی یافتہ معاشروں میں جھوٹ دھوکا فریب جیسی چیزیں کم ملتی ہیں، یہ لوگ اپنے آپ سے بھی سچ بولتے ہیں اپنے غلطیوں کو تسلیم کرتے ہیں اور اندر ہی اندر ان پر نادم بھی ہوتے ہیں اور جیسے ہی حالات و واقعات سازگار ہوتے ہیں یہ ان باتوں کا ازالہ کرنے سے بھی نہیں چوکتے ۔
تین طرح کے افراد سے ہمارا واسطہ پڑتا ہے ایک تو وہ جو سچ بولتے ہیں دوسرے وہ ہیں جو بولتے ہی نہیں ہیں اور تیسرے وہ جو سچ اور جھوٹ ملا کر بولتے ہیں۔ لیکن سچ بولنے والوں کی مقدار بہت قلیل ہے ، ایسا نہیں کہ لوگ سچ بولنا نہیں چاہتے مگر لوگ اپنی مختلف ذمہ داریوں کی آڑ لے کر راہ فرار اختیار کر لیتے ہیں اور معاشرے میں جھوٹ بولنے والوں کو کھلا میدان دے دیتے ہیں۔ ایسا ہی چلا آرہا ہے شائد ماضی میں سچ بولنے والوں نے سچ بولنا شروع کیا ہوگا مگر پھر زندگی اور موت کے درمیان فیصلہ کرنے کی صورت میں خاموشی اختیار کرنے میں ہی عافیت سمجھائی گئی ہوگی۔لوگوں کی ایک کثیر تعداد سچ اور جھوٹ کو ملاکر معاشرے کے سامنے رکھتے ہیں اور معاشرے سے یہ توقع لگا لیتے ہیں کہ یہ خود فیصلہ کرلیں کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے ۔ ایسے لوگ جو سچ اور جھوٹ ملا کر پیش کرتے جا رہے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو معاشرے میں استحکام نہیں آنے دیتے ۔ یہ ریل کی کبھی نا ملنے والی پٹری کے دونوں جانب ہوتے ہیں۔ اب آپ اندازہ لگا لیجئے ایک سادہ سی بات کہنے کیلئے ایک لمبی سی تحریر لکھنی پڑھ گئی ہے اور وہ سادہ سی بات یہ ہے کہ حق گوئی کی سزا تو ملے گی۔
بے قاعدگیاں کسی زہریلے سانپ کی طرح ڈستی جا رہی ہیں اور یہ تو طے ہے کہ زہر اثر کرتا ہے ۔ دنیا کو چلانے کیلئے قوانین مرتب کئے گئے ہر ملک نے اپنا پنا قانون بنایا اور ان قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کیلئے سزائیں بھی متعین کیں ۔ پھر عالمی عدالتیں بنائیں گئیں جہاں ظلم و زیادتی کی داستانیں رقم کرنے والوں کو کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا رہا ہے اور سزائیں بھی سنائی جاتی رہی ہیں۔ مگر انتہائی دکھ اور تکلیف کیساتھ یہ لکھ رہا ہوں کہ آج تک کوئی عدالت اور عالمی عدالت فلسطین میں کئے جانے والے ظلم کا نوٹس لے سکی ہے ، نا ہی کشمیر میں ہونے والے مظالم پر کسی قسم کا رد عمل دے سکی ہے اور نا ہی شام و افغانستان میں معصوم بچوں کے ناحق قتل عام پر کسی قسم کی آواز بلند کر سکی ہے ۔ یہا ں حساب کتاب ہی الٹا چل رہا ہے جو دہشت گردی کررہے ہیں وہی دہشت گردوں کی فہرستیں بھی مرتب کر رہے ہیں۔ اب حق کی اس آواز کو صرف کشمیر تک محدود نہیں رکھ سکتے ،فلسطین ، افغانستان ، شام یہ بھی اسی کڑی کے سلسلے ہیں کہ حق کیلئے آواز بلند کی جائے گی تو اسے دبانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی اور اب تو ہر ممکن بھی واضح ترین ہوچکا ہے کہ حق کیلئے آواز اٹھانے والوں کو اپنی اپنی زندگیاں خراج میں دینی پڑینگی۔
جب جھوٹ اور دیکھاوا زندگی کا حاصل جمع ہو تو سچ کو کون پہنچان سکتا ہے شائد پل بھر کیلئے آنکھیں ٹہرتی ہیں شائد پل بھر کیلئے دل دہلتا ہے مگر موبائل پر رکھی ایک انگلی آنکھوں سے اس ایک لمحے کو بہت دور لے جاتی ہے اور دل کو کسی بہلانے والی بات میں لگادیتی ہے ۔ پھر ایسا ہی ہوتا ہے کچھ سنبھلتے ہیں مگر فوراً سے بھی پہلے وہ موبائل کی اسکرین پر رکھی ایک انگلی سب کچھ بدل کر رکھ دیتی۔سماجی میڈیا فلسطین ، شام، افغانستان یا پھر کشمیر ہو موت کا رقص اپنے زوروں پر ہے ، ہم اس رقص سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ گوکہ دشمن ہماری سرحدوں پر بھی آئے دن شہریوں کو موت کی نیند سلا دیتے ہیں۔ تازہ واقعات کا جائزہ لیجئے جو اسرائیل کی بیہمانہ کاروائی میں نہتے فلسطیوں پر گولیوں کی بارش کی گئی اور ماں کے لالوں کو جنت کی جانب روانہ کیا ، پھر بلکل ایسا ہی واقع بزدل بھارتی فوجیوں نے کشمیر ونں پر آزمایا اور پھر افغانستان کے شہر میں قندوز میں مدرسے میں دستار بندی کی تقریب پر ایسا شب خون مارا کہ ساری زمین معصوم بچوں کے خون سے لا ل کردیا (اس دلدوز سانحہ پر ہماری بے حسی دیدنی رہی ہمارا میڈیا ہمارے علماء اور وہ سب جنہیں اس بات پر بھرپور مذمت کرنی تھی ایک لفظ تک نہیں کہا گیا)۔
دشمن کی ترجیحات اور اسکے عزائم بہت واضح ہوتے جا رہے ہیں اور یہ سب کے سب درپردہ ایک ہوچکے ہیں ۔ یہ ایک ایک کر کے تمام مسلمان ممالک کو غیرمستحکم کرتے جا رہے ہیں اور اپنے مقاصد حاصل کرتے جا رہے ہیں۔ اب یہ آگ ہمارے گھر تک پہنچنے ہی والی ہے ۔ یہ تصویروں میں اپنے جواں سال لاڈلوں کی لاشوں کے قریب بیٹھی ،روتی ،سروں کو پیٹتی ،سینہ کوبی کرتی مائیں ،بہنیں ،بیٹیاں ہماری بھی ہوسکتی ہیں ۔ دیکھئے ابھی ہمیں فیصلہ کرنے میں اور کتنا وقت لگے گا ۔ حق کی آواز جب بھی بلند ہوگی اسکا خراج دینا پڑے گا۔ ہمارے لئے سوائے امت کے تصور کو اجاگر کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے ، بصورت دیگر حق گوئی کی سزا تو ملتی ہے اور ملتی ہی رہیگی جب تک کہ ایک نہیں ہوجاتے ، فیصلہ ہم نے خود ہی کرنا ہے ۔ پروفیسر ڈاکٹر نزہت عباسی صاحبہ نے دکھ کو زبان ان الفاظ میں دی کہ کیا ہماری تاریخ معصوم بچوں کے خون سے لکھی جائے گی۔