تین روز برلن میں ۔
( حصہ اول )
عارف محمود کسانہ
برلن جانے کا یہ تیسرا اتفاق تھا۔ پہلی بار آٹھ سال قبل جنیٹکس کی عالمی تنظیم کی کانفرس میں شرکت کی غرض جانا ہوا جبکہ دوسری مرتبہ گذشتہ سال اپنے اہل خانہ کے ساتھ یورپ کی سیاحت کرتے ہوئے وہاں ایک رات قیام تھا۔اُس دورہ کا احوال ایک باتصویر بلاگ کی صورت شائع ہوچکا ہے۔ اس مرتبہ بزم ادب برلن کے جنرل سیکریٹری جناب سرور غزالی کی جانب سے ادبی محفل میں اپنا مقالہ پیش کرنے کی دعوت ملی ۔اس تقریب کے مہمان خصوصی جواہرلال لعل نہرو یونیوسٹی دہلی میں اردو کے استاد اور محقق پروفیسر ڈاکٹر خواجہ اکرام الدین تھے اور ان کے ساتھ اسی جامعہ میں شعبہ عربی کے پروفیسر ڈاکٹر رضوان الرحمٰن بھی شریک ہورہے تھے۔ دہلی سے آنے والے دونوں مہمان فرینکفرٹ سے محترم سید اقبال حیدر کی معیت میں ادبی نشست میں شرکت کے لیے تشریف لا رہے تھے ۔اپنی شدید مصروفیات کے باوجود انکار ممکن نہ تھا حالانکہ شوکت خانم کینسر ہاسپیٹل کراچی کی تعمیر کے لیے اسٹاک ہوم میں ہونے والے امدادی پروگرام کی ذمہ داری بھی اٹھا رکھی تھی ۔جناب سرور غزالی سے شرکت کا وعدہ کیا اور روانگی کی تیاری کی۔ برلن پہنچتے ہی ہوٹل میں پروفیسر خواجہ اکرام الدین،پروفیسر رضوان الرحمٰن اور سید اقبال حیدر سے ملاقات ہوئی کیونکہ ہم نے طے کیا تھا کہ ایک ہی ہوٹل میں قیام کیا جائے گا۔محترم خواجہ اکرام الدین سے یہ پہلی ملاقات تھی لیکن کافی عرصہ سے باہمی رابطہ کی وجہ سے اجنبیت کا سوال ہی نہ تھا۔ انہوں نے اپنی کتاب ’’ اردو کا عالمی تناظر‘‘ اور دہلی کا ایک کاخاص تحفہ بھی عنائیت کیا۔ پروفیسر خواجہ اکرام الدین دنیا بھر میں اردو کے فروغ کے لیے کوشاں ہیں۔ وہ مختلف ممالک میں قائم اردو کی بستیوں کے ساتھ رابطہ رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے دنیا بھر میں اردو لکھنے والوں کی ایک فہرست مرتب کرنے کا کام شروع کیا ہوا ہے اور مہجری ادب کے شعبہ میں ہر سال ایک ایوارڈ دینے کا اعلان بھی کیا ہے۔ اس سلسلہ میں پہلاایوارڈ فرینکفرٹ ،جرمنی میں مقیم جناب سید اقبال حیدر کو ان کی اردو ادب کے لیے خدمات کے صلہ میں دیا گیا ہے۔پروفیسرخواجہ اکرام نے انٹر نیٹ پر اردو سیکھنے لے لیے ایک بہترین پروگرام بھی تیار کیا ہے۔ ان کی زیر سرپرستی بہت سے طلبہ اردو میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ان کے دو پی ایچ ڈی کے طلباء رکن الدین اور محمد امتیاز ا لحق نے راقم کی کتابوں ’’افکار تازہ‘‘ اور ’’ سبق آموز کہانیاں‘‘ پر تحقیقی پیپر لکھ کر اپنے پی ایچ ڈی کے پروگرام میں شامل کیا ہے۔برلن پہنچنے کے بعد اسی شام کو وہاں قائم ایک اور ادبی تنظیم اردو انجمن برلن کی جانب سے ایک مقامی ریستوران میں عشائیہ کااہتمام کیا تھا۔ جناب سرور غزالی کی رہنمائی میں ہم سب اردو انجمن کی دعوت میں پہنچے تو انجمن کے صدر جناب عارف نقوی، نائب صدر انور ظہیراور وہاں موجود انجمن اردو کے دیگر اراکین ڈاکٹر سنیل گپتا، دیوندر سنگھ، دیراج رائے، طارق محمود، محمد سہیل اور پاکبان انٹر نیشنل کے ظہور احمدہمارے منتظر تھے۔اس مختصر نشست میں پورے برصغیر کی نمائندگی تھی۔ مزیدار کھانوں کا لطف اٹھانے کے ساتھ ادبی گفتگو سے محفل کا مزا دوبالا ہوگیا۔مہمانوں کی جانب سے اظہار خیال کے بعد جناب جمیل احسن اور انور ظہیر کے کلام نے خوب سماں باندھا اور یوں یہ محفل اختتام پذیر ہوئی۔ عارف نقوی ایک شخصیت نہیں بلکہ ایک انجمن اور زندہ تاریخ ہیں۔ وہ شاعر، افسانہ نگار اور کئی کتابیوں کے مصنف ہیں۔وہ 1934 میں لکھنو میں پیدا ہوئے۔ انجمن ترقی پسند مصنفین دہلی کے جنرل سیکریٹری رہے اور 1961 میں جرمنی آئے اور تب سے یہیں مقیم ہیں۔ انہوں نے 1963 میں برلن یونیوسٹی میں پڑھانا شروع کیا ۔ ہائیڈل برگ یونیورسٹی میں اردو کی پروفیسرکرسٹینااسٹرہیلد ان کی شاگرد ہیں۔ برلن یونیوسٹی بین الاقوامی شہرت کی حامل ہے اور بھارت کے صدر ڈاکٹر ذاکرحسین نے اسی یونیوسٹی سے پی ایچ ڈی کی تھی۔عارف نقوی 1969 سے 1992 تک ریڈیو برلن انٹرنیشنل کی اردو سروس کے سنئیرایڈیٹر رہے۔ عارف نقوی کی ایک اور شہرت کیرم کے کھیل کو جرمنی اور دنیا بھر میں فروغ دینا ہے۔ وہ دس سال تک کیرم کی انٹرنیشنل فیڈریشن کے صدر رہے۔ انہوں اپنی کتاب ’’ کیرم سے رشتہ‘‘ بہت محبت کے ساتھ راقم کو عطا کی۔
اگلے روز بعد دوپہر مقالہ و مشاعرہ کی محفل تھی، یہ طے پایا کہ اس سے قبل شہردیکھا جائے۔ ہمارا قافلہ امجد ملک کی راہنمائی میں شہر کی سیاحت کو نکلا۔ دیواربرلن کی باقیات ، پارلیمنٹ کی پرشکوہ عمارت اور برلن کی پہچان برانڈنبرگ گیٹ بھی دیکھا۔ برلن کا عظیم الشان ریلوے اسٹیشن اور کئی تاریخی مقامات سے گزرتے ہوئے ملک امجد ہمیں ان کی تفصیلات سے آگاہ کرتے جاتے جبکہ پروفیسر رضوان الرحمٰن کے کیمرے کی آنکھ مناظر محفوظ کرتی جاتی۔ جب بھوک خوب چمکی تو ایک مقامی ریستوران میں کھانے کے لیے پہنچے جہاں جناب عبدالمناف خان غلزئی نے ظہرانے کا اہتمام کیا ہوا تھا اور محترم عارف نقوی بھی اس میں شرکت کے لیے تشریف لے آئے۔ خواجہ اکرام، پروفیسر رضوان ، جمیل احسن، سید اقبال حیدر، ملک امجد، عارف نقوی اور میزبان عبدالمناف کی موجودگی میں ظہرانہ بھی ایک ادبی نشست کی صورت اختیار کرگیا۔ علم و ادب کے مختلف موضوعات، اردو کے عالمی سطح پر فروغ اور مہجری ادب کے حوالے سے گفتگو ہوتی رہی۔ محترم عارف نقوی کئی اہم ادبی واقعات سے ہماری معلومات میں اضافہ کررہے تھے۔ عارف نقوی جب بول رہے ہوتے ہیں تو دل یہی چاہتا ہے کہ خاموشی سے سنتے جائیں۔ اس نشست کے میزبان عبدالمناف خان غلزئی کا تعلق راولپنڈی سے ہے اور وہ کافی عرصہ سے جرمنی میں مقیم ہیں۔ وہ ادب دوست شخصیت ہیں اور مترجم ہونے کے علاوہ ان کی وجہ شہرت کیلی گرافی، پینٹنگ، گرافکس اور فائن آرٹس ہے۔ اپنی اہم مصروفیات کے باوجود انہوں نے ہمارے لیے نہ صرف اس نشست کا اہتمام کیا بلکہ ہماری درخواست پر شام کو ہونے والی ادبی محفل میں شرکت بھی کی۔ ظہرانے سے فارغ ہوکر بزم ادب برلن کی جانب سے پروگرام میں شرکت کی تیاری کے لیے ریستوان سے اپنے ہوٹل کی طرف روانہ ہوئے۔ اس محفل کا احوال قارئین اگلی قسط میں ملاحظہ فرماسکیں گے۔