کارگل کی جنگ کے دوران پاکستان آرمی کے شیر جوانوں کی جدید دنیا کی عسکری تاریخ میں غیر معمولی جراتمندی کی تاریخ رقم کرڈالی تھی۔یہ بھی معرکہ کارگل کا اہم ترین واقعہ ہے کہ جسے بھارتی سورماوں کی مائیں ابھی تک نہیں بھلا پارہیں ۔
یہ19مئی 1999ء کی صبح چار بجے کا وقت تھا ۔بھارتی فوج کے ساڑھے تین سو سورما کارگل کی ایک پوسٹ پر قبضہ کے لئے ایڈوانس کر رہے تھے ۔یہ پوسٹ انکے ہتھے چڑھ جاتی تو کارگل سے پاکستانی افواج کی پیٹھ ننگی ہوجاتی اور دشمن کو مزید آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا تھا ۔اس پوسٹ پر حوالدار فیروز خان اپنے سات جوانوں کے ساتھ موجود تھے ۔دشمن کی نقل و حرکت دیکھتے ہی انہیں اسکے مذموم عزائم کا احساس ہوگیا جو سامنے برفیلے پہاڑ کی گہرائیوں سے نکل کر پھیلتے ہوئے یوں آگے بڑھ رہا تھا کہ کچھ ہی دیر میں وہ پوسٹ تک پہنچ سکتا تھا ۔
حوالدار فیروز خان نے اندازہ لگا لیا تھا کہ اگر دشمن کو فوری نہ روکا گیا تو پھر اسکے مزید ایڈوانس کرنے پر ساڑھے تین سو دشمنوں کی جمعیت کو کیسے روکا جاسکے گا ۔وہ قوی العزم اور بڑے ہی جوشیلے انداز میں اپنے ساتھیوں سے بولا’’ دشمن زیادہ ہے تو کیا ہے ،ہم سات لوگ اللہ کے مجاہد ہیں اور آج ہم ان سے انیس سو پینسٹھ ا ور انیس سو اکہتر کی جنگوں سے زیادہ دلیری سے لڑیں گے ۔یہ نہیں جانتے انہوں نے کس کو پکارا ہے۔‘‘
اس موقع پر حوالدار فیروز خان نے اپنے کمانڈر کرنل تنویر کو دشمن کی نقل و حرکت سے آگاہ کردیا تھا ۔اس وقت حوالدار فیروز خان کی نفری کے سوا کوئی اور ایسا چارہ نہیں تھا کہ دشمن کو یہی سات مجاہد روکیں گے ۔
حوالدار فیروز خان نے دشمن کی نقل و حرکت کا جائزہ لیا اور ساتھیوں سے کہا ’’ ان کو ایک جگہ اکٹھا ہونے دو پھر ان پر فائر کھولنا‘‘
حوالدار فیروز خان کی ذہانت اور تجربہ نے اسکی بات کو درست ثابت کردیا ۔دشمن نے پانچ بجے کے قریب ایک برفیلی چٹان کے پاس اکٹھے ہوکر چائے پینے کا اہتمام کیا اور ابھی وہ چائے کی آدھی پیالی ہی پی رہا ہوگا کہ حوالدار فیروز خان نے دو ساتھیوں کے ساتھ ریکی کرنی شروع کی اور مشین گن لیکر ایسی جگہ پہنچ گیا کہ دشمن کا اسکی گولیوں سے بچنا محال ہوجاتا ۔یہی ہوا ۔حوالدار فیروز خان نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایااور فائر کھول دیا ۔
حوالدار فیروز خان اس وقت کو جب یاد کرتا ہے تو اسکے سامنے میدان جنگ کا ہر لمحہ تازہ ہوجاتا ہے ۔’’ میں نے فائر کھولا تو دشمن کی حالت ماہی بے آب مچھلیوں جیسی تھی۔جیسے مچھلی کو پانی سے باہر نکالا جاتا ہے تو وہ تڑپنے لگتی ہے ۔مشین گن کی گولیوں نے انہیں بھون کررکھ دیاور وہ تڑپنے لگے۔دشمن خوفزدہ ہوگیا اور اسکے سورماوں نے بھاگنا شروع کردیا ۔کسی نے کوئی گڑھا دیکھا نہ چٹان ،جس کا جدھر منہ آیا بھاگ لیا ۔سامنے سفید برفیلا میدان خون سے سرخ ہوگیا تھا ۔دشمن کی بھاری جمعیت برف کے جہنم میں پہنچ گئی تھی۔میں اپنی جگہ سے آگے بڑھا اور اونچی آواز میں چلا کر کہا ’’اوئے بزدلو بھاگ کیوں رہے ہو رک جاو۔۔اگر واپس جانے میں کامیاب ہوگئے تو جاکر واجپائی کو میرا سلام بولنا ‘‘
میں نے اپنے کمانڈر کرنل تنویر کو وائرلیس پر کہا ’’ سر اجازت دیں تو دشمن کے پچاس ساٹھ قیدی پکڑ کر لاسکتا ہوں ۔‘‘
کرنل تنویر نے روک دیا’’ بالکل نہیں ۔میرے لئے تم زیادہ قیمتی ہو ۔جو تم نے کام کردکھایا ہے یہ بڑا معرکہ ہے ۔ایسا نہ ہو تم آگے جاو اور دشمن تمہیں تاک لے ‘‘
میں تاہم اس بارے فکر مند تھا کہ ہوسکتا ہے کہ دشمن ابھی وہیں کہیں چھپا بیٹھا ہواور وہ ہماری پوزیشن دیکھ کر ائر اٹیک نہ کرادے ، اس لئے اسکوٹریس کرنا لازمی تھا ۔اس وقت دھند پھیل چکی تھی ۔میں آگے بڑھا اور پھر اس جگہ جا پہنچا جہاں برف پر سرخ تالاب بن گیا تھا ۔اٹھاون دشمن مر چکے تھے ،چند زخمی تھی ،میں نے ان پر گن تان لی تو ہاتھ جوڑ کر وہ بولے کہ بھگوان کے لئے انہیں معاف کردیا جائے ۔میں نے ایک مسلمان مجاہد کی طرح ان سے کہا ’’ جاو ،میرا یقین کرو کہ رب کعبہ کی قسم ،اگر تم واپس خود اپنے قدموں پر چل کر جاسکتے ہو تو اپنے کیمپ میں چلے جاو ،تم پر ایک بھی فائر نہیں کیا جائے گا ۔اور جا کر اپنے افسروں کو بتانا کہ پاکستانی فوج زخمیوں اور نہتوں پر ہاتھ نہیں اٹھاتی۔انہیں کہو کہ بزدلو تمہیں واجپائی نے بھیجا ہے کشمیر کو بچانے تو اپنی تازہ نفری اوپر بھیجو ،موت سے کیوں ڈرتے ہو‘‘ میں نے ساتھیوں کی مدد سے بھارتی فوج کے ہتھیار اکٹھے کئے اور وہی ہتھیار بعد میں بھارتی فوج پر استعمال کرنے کا وقت بھی آیا ۔الحمد اللہ کارگل میں بھارتی فوج کو ہمارے سات جوانوں کی نفری نے جوعبرتناک شکست دی ہے ،وہ اسکو کبھی بھول نہیں پائیں گے ‘‘
اس میں کوئی شک نہیں کہ حوالدار فیروز خان نے بعد ازاں اس پوسٹ کو اسقدر محفوظ بنایا دیا کہ بھارتی فوج نے اس جانب سے حملہ کرنے کی جرات بھی نہیں کی۔کارگل کے معرکہ میں جس طرح کیپٹن رومیل اکرم،کپٹن کاشف جیسے غازیوں نے سینکڑوں دشمنوں کو چند سپاہیوں کی مدد سے عبرتناک شکستیں دیں وہاں حوالدار فیروز خان کا نام بھی عسکری تاریخ میں رقم ہوچکا ہے ۔