بیگم کلثوم نواز انتقال کر گئیں، وزیراعظم ، آرمی چیف، آصف زرداری اور دیگر سیاسی و عسکری شخصیات کا اظہار افسوس

 بیگم کلثوم نواز انتقال کر گئیں، وزیراعظم ، آرمی چیف، آصف زرداری اور دیگر سیاسی و عسکری شخصیات کا اظہار افسوس

سابق وزیراعظم نواز شریف کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز لندن کے ہارلے سٹریٹ کلینک میں انتقال کر گئی ہیں، خاندانی ذرائع کا کہناہے کہ کلثوم نواز کی میت کو جمعہ کے روز پاکستان لایا جائے گا اور ان کی تدفین جاتی امراءرائیونڈ میں کی جائے گی۔

تفصیلات کے مطابق بیگم کلثوم نواز کے انتقال کی تصدیق شہبازشریف نے کی اور کہا کہ وہ دستیاب فلائٹ میں لندن کیلئے روانہ ہوں گے، میت کو پاکستان لایا جائے گا۔شہباز شریف کا کہنا تھا کلثوم نواز کی وفات شریف خاندان کیلئے بڑا دھچکا ہے، نواز شریف نے ہر مشکل وقت میں اہلیہ سے مشاورت کی، مرحومہ نے گھر بھی سنبھالا، آزمائش پڑی تو چاردیواری سے باہر نکلیں۔ انہوں نے کہا بیگم کلثوم نواز مشکل حالات میں باہر نکلیں، ڈکٹیٹر شپ کو چیلنج کیا۔

وزیراعظم نے کلثوم نواز کے انتقال پر دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا حکومت اہلخانہ کو قانون کے مطابق تمام سہولیات دے گی۔ عمران خان نے برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن کو سہولیات کی فراہمی میں معاونت کی ہدایت کر دی۔

بلاول بھٹو زرداری نے بیگم کلثوم نواز کے انتقال پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا بیگم کلثوم نواز ایک بہادر خاتون تھیں، انہوں نے جمہوریت کے لئے جدوجہد کی۔ بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے مرحومہ کو بلند درجات کے لئے دعا کی گئی۔

لندن کے ہارلے سٹریٹ کلینک میں زیر علاج سابق وزیراعظم کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز کی طبیعت گزشتہ رات ایک مرتبہ پھر انتہائی تشویشناک ہوگئی تھی جس پر انہیں آج برطانوی وقت کے مطابق ساڑھے دس بجے وینٹی لیٹر پر منتقل کر دیا گیا تھا جبکہ ڈاکٹرز ان کی صحت کے حوالے سے کچھ نہیں بتا رہے تھے تاہم اب حسن نواز شریف نے تصدیق کی ہے کہ ان کی والدہ انتقال کر گئی ہیں۔

ہارلے سٹریٹ کلینک کے ذرائع کے مطابق بیگم کلثوم نواز کے پھیپھڑوں کا مسئلہ سنگین ہو گیا تھا جس کے باعث انہیں وینٹی لیٹر پر ڈالنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ بیگم کلثوم نواز اس وقت لائف سپورٹ اور گردوں کے ڈائلسز پر جبکہ ان کے اہل خانہ نے صحت کی خرابی کی تصدیق کرتے ہوئے دعا کی اپیل کی تھی تاہم اب وہ ہم میں نہیں رہیں۔

حسین نواز کا کہنا ہے کہ جب سے ان کو ہوش آئی تھی اور اشاروں سے بات کرنے کے قابل ہوئی تھیں، وہ اکثر مریم نواز اور نواز شریف کے بارے میں پوچھتی تھیں اور کافی فکرمند تھیں، گزشتہ روز بھی جب ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے نواز شریف اور مریم نواز شریف کے بارے میں پوچھا تھا۔

حسین نواز نے مزید کہا کہ انہیں اس بات کا بھی صدمہ تھا کہ ان کے شوہر نواز شریف اور بیٹی مریم نواز ان کیساتھ نہیں ہیں اور انہیں یہ بھی نہیں بتایا گیا تھا کہ وہ دونوں جیل میں ہیں جبکہ جیل میں ہونے کے بعد دونوں کی ان کیساتھ زیادہ بات چیت بھی نہیں ہوتی تھی اور یہ صدمہ ان کی طبیعت زیادہ خراب ہونے کی وجہ بھی بنا۔

یاد رہے کہ بیگم کلثوم نواز کو 17 اگست 2017 کو علاج کیلئے لندن کے ہارلے کلینک لے جایا گیا تھا جہاں 22 اگست کو ان کے گلے میں کینسر کی تشخیص ہوئی تھی ، وہ تقریبا ایک سال اور 25 دن تک لندن میں زیر علاج ہیں۔

بیگم کلثوم نواز نے یکم جولائی 1950ء کو اندورن لاہور کے کشمیری گھرانے میں حفیظ بٹ کے ہاں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم مدرستہ البنات سے حاصل کی، جبکہ میٹرک لیڈی گریفن اسکول سے کیا۔ انہوں نے ایف ایس سی اسلامیہ کالج سے کیا اور اسلامیہ کالج سے ہی 1970ء میں بی ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔ ادب سے گہرا لگاؤ ہونے کے باعث انہوں نے 1972ء میں فارمین کرسچیئن کالج سے اردو لٹریچر میں بی اے کی ڈگری بھی حاصل کی۔ انہوں نے اردو شاعری میں جامعہ پنجاب سے ایم اے کیا۔ کلثوم نواز نے پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کر رکھی ہے۔

2 اپریل 1971ء کو بیگم کلثوم کے ہاتھوں میں مہندی اور نواز شریف کے ماتھے پر سہرا سجا اور دونوں نے زندگی کے نئے سفر کا آغاز کیا۔ نوازشریف اور بیگم کلثوم نواز کے دو بیٹے حسن اور حسین نواز، جبکہ دو بیٹیاں مریم نواز اور اسماء نواز ہیں۔

نوازشریف کے پہلی مرتبہ 6 نومبر 1990ء کو وزیراعظم کا منصب سنبھالنے پر بیگم کلثوم نواز کو خاتون اول بننے کا اعزاز حاصل ہوا جو 18 جولائی 1993ء تک برقرار رہا۔ وہ 17 فروری 1997ء کو دوسری مرتبہ خاتون اول بنیں۔ 12 اکتوبر 1999ء کو فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے وزیر اعظم نواز شریف کا تختہ الٹ دیا اور انہیں بھیج دیا گیا۔

نواز شریف سے عہدہ چھینا تو جانثار فصلی بٹیروں نے بھی آشیانے بدل لیے۔ امور خانہ داری نمٹانے والی خاتون بیگم کلثوم نواز کو تنہا اپنے شوہر کے حق میں آواز اٹھانا پڑی۔ انہوں نے نہ صرف شوہر کی رہائی کیلئے عدالت سے رجوع کیا بلکہ مسلم لیگ (ن) کی ڈوبتی کشتی کو بھی سہارا دیا۔ انہوں 1999ء میں مسلم لیگ (ن) کی پارٹی کی قیادت سنبھالی، لیگی کارکنوں کو متحرک کیا اور جابر آمر کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن گئیں۔ وہ 2002ء میں پارٹی قیادت سے الگ ہو گئیں۔

جون 2013ء میں انہیں تیسری مرتبہ خاتون اول ہونے کا اعزاز حاصل ہوا جو صرف 28 جولائی 2017ء تک ہی رہ سکا۔ سپریم کورٹ کے حکم پر نوازشریف کو نہ صرف وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھونا پڑا بلکہ وہ تاحیات نااہل بھی ہو گئے۔

ضمنی الیکشن کا شیڈول جاری ہوا تو مسلم لیگ (ن) نے نوازشریف کی اہلیہ کو میدان میں اتار دیا۔ بیگم کلثوم نواز علیل ہونے کے باعث 17 اگست کو لندن روانہ ہوئیں جس کے باعث این اے 120 سے انتخابی مہم چلانے کا بیڑہ بیٹی مریم نواز نے اٹھایا۔تاہم بیگم کلثوم نواز الیکشن میں کامیاب ہوئی لیکن وہ بیماری کے باعث پاکستان نہ آسکیں اور حلف نہ اٹھا سکیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں