ناروے میں دہری شہریت کا قانون

تحریر : سید ندیم حسین

آج نارویجن پارلیمنٹ میں دہری شیریت کا قانون پیش کیا گیا۔ قانون کے مطابق نارویجن شہری کسی دوسرے ملک کی شہریت نہیں رکھ سکتے۔ اگر آپ کسی اور ملک سے ناروے آئے ہیں تو یہاں کی شہریت لیتے وقت آپکو اپنی پیدائشی اور آبائی شہریت ترک کرنا پڑتی ہے۔ اسی طرح اگر ناروے کے مقامی شہری کسی دوسرے ملک میں مستقل سکونت اختیار کریں اور وہاں کی شہریت لینا چاھیں تو انھیں اپنی نارویجن شہریت ترک کرناپڑتی ہے۔
نئے قانون کامسودہ دائیں بازو کی پارٹیوں نے پیش کیا ہے۔ جو اس وقت حکوت میں ہیں۔ البتہ سنٹر پارٹی اور لیبر پارٹی اس قانون کے خلاف ہیں۔ اور انھوں نے اعلان کر رکھا ہے کہ وہ قومی اسمبلی میں اس قانون کے خلاف ووٹ دیں گی۔ دائیں بازو کی کنزرویٹو پارٹی جو اس قانون کی محرک ہے۔ کے ممبر قومی اسمبلی اووے تھریلویک نے کہا ہے کہ یہ ایک خوشی کادن ہے کہ ہم 1888۶ ایک قانون بدلنے جا رہے ہیں اور اسے جدید دور سے ہم آہنگ بنا رہے ہیں۔ اُن کے مطابق بہت سے نارویجن اس تبدیلی کا انتظار کر رہے ہیں۔ حکومت نے تجویز پیش کی ہے کہ جو لوگ دہری شہریت لیں گے۔ اگر وہ ناروے میں کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث ہوئے تو ان کی نارویجن شہریت ختم کر دی جائے گی۔ موجودہ حالات میں حکومت ایسے نہیں کر سکتی کیونکہ انسانی حقوق کے کمیشن کے مطابق کسی بھی شخص کو عدم شہریت نہیں کیا جا سکتا۔ وکلا۶ کی تنظیم نے اس تجویز پہ تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح ایک ہی جُرم کے مرتکب افراد کی سزا شہریت کی بنیاد پہ مختلف ہوگی۔ لیکن تھریلویک کے بقول یہ قانون ایسے جرائم کو روکنے میں ممدو معاون ثابت ہو گا۔ کیونکہ پھر دہری شہریت کے حامل افراد اپنی نارویجن شہریت کھونے کے ڈر سے جرائم نہیں کریں گے۔
لیبر پارٹی اور سنٹر پارٹی اس قانون کے خلاف اس وجہ سے ہیں کہ ان کے بقول اس قانون کی وجہ سے زبردستی کی شادی اور بچوں کو زبردستی آبائی وطن بھیجنا آسان ہوجائے گا۔ لیکن تھریویک اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ چونکہ یہ افراد نارویجن شہری بھی ہوں گے اس لیئے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہم نارویجن قانون کے تحت انھیں جب چاھیں روک سکتے ہیں۔
سنٹر پارٹی کے رہنما تھرگوے ویدوم کہتے ہیں اس طرح دہری شہریت کے حامل افراد کی ناروے سے وفاداری مشکوک ہو جائے گی۔ وہ پوچھتے ہیں کہ اگر ناروے کا اس شخص کے آبائی وطن سے تنازعہ ہوجائے تو کیا وہ کیا ناروے کو ترجیح دے گا؟ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ قومی سیکیورٹی ایجنسی بھی خبردار کر چُکی ہے۔
قانون کی اس تبدیلی کی وجہ سے مقامی نارویجن جو کسی اور ملک کی شہریت اختیار کر چُکے ہیں وہ اپنا پاسپورٹ دوبارہ لے سکتے ہیں۔ لیکن جو لوگ ناروے یا ناروے سے باہر کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث رہے ہیں اور انھیں سزا بھی ہو چُکی ہے ۔ انھیں نارویجن شہریت واپس نہیں ملے گی۔
اس قانون کے لاگو ہونے سے پہلے ناروے کو 6 مئی 1963ء کے یورپی کنونشن سے علیحدگی اختیار کرنا پڑے گی۔ کنونشن کا قانون کہتا ہے کہ کوئی بھی نارویجن شہری جب کسی دوسرے ملک کی شہریت اختیار کر لیتا ہے تواسے نارویجن شہریت چھوڑنی پڑے گی۔
اس قانون کا اطلاق یورپی کنونشن کو دیئے گئے استعفی کے ایک سال بعد ہو گا۔ یعنی دوسرے لفظوں میں اگر ناروے یہ معائدہ اس یکم جنوری کو ختم کرے تو قانون کا اطلاق یکم جنوری2020ء سے ہو گا۔
بہت سے نارویجن اپنی آبائی شہریت ترک کر چُکے ہیں۔ لیکن ان کے والدین ، عزیز واقارب اور بعض کے بچے بھی یہاں رہتے ہیں۔ یہ بالکل ایسے ہیے۔ جیسے ہم پاکستانی اور دوسرے ممالک کے رہنے والےلوگ اپنا آبائی وطن چھوڑ کے ناروے میں آباد ہوئے ہیں۔ لیکن اکثر اپنے آبائی وطن آتے جاتےرہتے ہیں۔ جن لوگوں نے ناریجن شہریت لی وہ اپنے آبائی وطن جانے کے لیئے ویزا لیتے ہیں۔ پاکستانی تارکین وطن کو ایک اضافی سہولت میسر ہے کہ وہ اگر پاکستان اوریجن کارڈ حاصل کر لیں تو انھیں ویزے سے استثنی حاصل ہے۔
بیشتر پاکستانی اسی سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ کیونکہ اس کارڈ کے حامل افراد کو ویزے کی چھوٹ کے علاوہ پاکستان میں جائیداد خریدنے ، بینک اکاؤنٹ کھلوانے اور دوسرے سرکاری کام کرنے کی بھی اجازت ہے۔ یعنی پاکستانی شہریت نہ ہوتے ہوئے بھی آپکو وہ حقوق حاصل ہیں۔ پرویز مشرف کی حکومت کا یہ قانون نارویجن تارکین وطن کے لییے ایک نعمت متبرکہ ثابت ہوا ہے۔
اب نارویجن حکومت تو ہمیں اجازت دے رہی ہے کہ ہم اپنے آبائی ملک کی شہریت دوبارہ لے سکتے ہیں۔ لیکن یہ بات حتمی طور پہ نہیں کہی جا سکتی کہ ہمارا آبائی وطن بھی ہمیں اب دوبارہ شہریت دے گا یا نہیں۔ کیونکہ اب ہم پاکستان میں غیر ملکی شمار ہوتے ہیں۔ اور غیر ملکیوں کے لیئے پاکستانی شہریت حاصل کرنے کے یقینا» کوئی قوانین ہوں گے۔ اس کے لیے ضروری ہوگا کہ کہ وہ پاکستان میں کچھ دیر قیام کریں۔ اس کے بعد شہریت لینے کے اہل ہوں گے۔ میری رائے میں ہم نارویجن پاکستانیوں کو یہ معاملہ حکومت کےسامنے رکھنا چاھیئے۔ اور اس کے لیئے کوئی میکنزم بنوانا چاھیئے۔ کیونکہ ہم میں سے بہت لوگ اپنی پاکستانی شہریت دوبارہ لینا چاھیں گے۔ اس کے لیئے آسان ترین طریقہ تو یہی ہے کہ جن کے پاس پاکستان اوریجن کارڈ ہے انھیں پاکستانی پاسپورٹ جاری کر دیا جائے۔ کیونکہ پاکستان اوریجن کارڈ دیتے وقت حکومت پاکستان تسلیم کر چکی ہے کہ یہ افراد پہلے پاکستانی تھے۔ اور اسی کارڈ کو پاسپورٹ میں بدل دیا جائے۔ لیکن جو لوگ کارڈ برقرار رکھنا چاھیں انھیں یہ سہولت بھی میسر ہو۔ امید ہے کہ پاکستان کی حکومت اس مسئلے پہ بھی غور کرے گی ۔ اور ملک کو کثیر زر مبادلہ دینے والے اور ہر چندہ مہم میں سب سے آگے نارویجن اوورسیز پاکستانیوں کے لیئے شہریت دوبارہ حاصل کرنے کے لیئے سہولت پیدا کرے گی۔ اس سلسلے میں ناروے میں پاکستانی تنظیموں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاھیئے۔ اور پاکساتنی سفارت خانے کے ساتھ مل کے یہ کام کرنا چاھیئے۔ ابھی یہ قانون لاگو ہونے میں کم از کم ایک سال باقی ہے۔ لہذا اس مسئلے پہ ابھی سے اس کام شروع کر دیا جانا چاھیئے۔

اپنا تبصرہ لکھیں