باعث افتخار
انجینئر افتخار چودھری
یہ عنوان میری طرف سے نہیں ہے۔معروف ڈرامہ نگار،کالم نویس دھلے گجرانوالہ کے میرے سابق محلے دار یونس بٹ کی جانب سے ان کی ایک کتاب سے لیا ہے۔بت بڑے بزلہ سنج کھابے کھانے والے ہوتے ہیں باہر کے شہروں میں گجرانوالہ سے آنے والی جنج کا ریٹ ڈبل کر دیا جاتا ہے انہیں علم ہوتا ہے پوری بارات میں پچیس فی صد بٹ بھی ہوں تو نفع کم ہو سکتا ہے۔یہاں جن بٹوں کا ذکر ہے وہ پنڈی وال ہیں پنڈی میں کھانے سے زیادہ مغز کھانے کو ترجیح دی جاتی ہے شائد اسی لئے کسی ناصر بٹ کا ذکر آ گیا ہے
چوبیس گھنٹے بھی نہ گزرے اور مریم اعوان کے غبارے سے ہوا نکل گئی جج ارشد ملک نے بیان دے دیا کہ انہوں نے جو فیصلے کئے وہ خدا کو حاطر و ناطر جان کر کئے اگر کوئی دباؤ ہوتا تو وہ ایک فیصلہ نواز شریف کے حق میں اور دوسرا ان کے خلاف نہ کرتے۔ناصر بٹ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ وہ پنڈی میں رہتے ہیں اور ایک ہی شہر کے باسی ہیں ان کے علاوہ جج صاحب نے کہا میرے ان کے بھائی عبداللہ بٹ سے بھی مراسم ہیں۔میرے خیال میں یہ وہی عبداللہ بٹ ہیں جن کا گاڑیوں کا کاروبار ہے اور وہ لیاقت باغ کے باہر مری روڈ پر کام کرتے ہیں۔میری اپنی معلومات کے مطابق عبداللہ بٹ نون لیگ کے کٹر حمائتی ہیں دراز زلفوں والے بٹ صاحب سے میری بھی شناسائی ہے اگر یہ وہی بٹ ہیں۔مریم اعوان نے قسم کھا رکھی ہے کہ وہ اپنے ابے کی بیڑیوں میں وٹے ڈال کے ہی چھوڑے گی۔حالیہ مضحکہ خیز بیان نے نواز شریف کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔بٹ بڑی پیاری چیز ہوتے ہیں گجرانوالہ اور لاہور کے بٹوں سے برسوں پرانی یاد اللہ ہے حب بٹاں میں ناصر بٹ عبداللہ بٹ پومی بٹ سہیل ضیاء بٹ توفیق بٹ کتنے آگے نکل گئے وہ تاریخ کا حصہ ہیں۔ایک گلوبٹ ہی کافی تھے اوپر سے درجن بھر بٹوں نے میاں نواز شریف کے سر کے بوجھ کو مزید بھاری کر دیا ہے۔گویا میاں نواز شریف کوئی حاتو تھے
جو ان کا بوجھ اٹھائے لکھ پت میں بیٹھ کر دبے جا رہے ہیں۔ان گلو بٹوں نے تہیہ کر لیا ہے میاں جانے تے جیل جانے۔بی بی تو ہزارے کے اعوانوں میں بیاہی گئی ہے اس پر اثر تو ہونا چاہئے کہ خاموشی سے چادر اور چار دیواری میں رہ کر احترام سے جد وجہد کرتی لیکن نالائق اور آوارہ بیٹوں کے سبب زلیل و رسوا ہونے والے باپ تو دیکھے ہیں لیکن بیٹیاں جو باپ کی چہیتی ہوتی ہیں ان کے ہاتھوں جو زلالت تین بار کے وزیر اعظم کو اٹھانے پڑی ہے وہ دیدنی ہے۔ عزت بچانا بھی فرض ہے کہتے ہیں ایک دکان پر ہانپتے کانپتے دوبھائی پہنچے استفسار پر بتایا کہ پچھلے چوک میں ابا جی کو مار پڑ رہی تھی عزت بچا کے بھاگے ہیں۔پوچھے ابا کہاں ہیں جواب دیا اللہ کے حوالے۔یہاں حن اور حسین میاں نواز شریف کو عدالتوں کے حوالے چھوڑ کر لندن جا بیٹھے ہیں۔میاں جانے تے جیل جانے۔حب دنیا میں سرشار لوگ تو بہت دیکھے ہیں مگر ایسے لوگ کم ہی دیکھے ہیں جو چمڑی دے رہے ہیں دھمڑی نہیں۔
سعودی عرب کی مثال سامنے ہے جہاں ملینز دے کر جان و مال بچا لیا گیا وطن بھی خوش اور وہ بھی۔
جمہوریت کی قباحتیں دیکھئے دونی نہیں ملی اور جہاں بادشاہت کا نظام ہے وہاں کا حسن یہ کہ ملک خوشحال۔سعودی عرب میں کئی سالوں بعد فاضل بجٹ پیش ہوا ہے امن امان ہے خوشحالی ہے معیشت کی میثاق کے ثمرات یہ ہیں کہ ایک بار پھر سعودی عرب انگڑائی لے رہا ہے۔بات کہیں اور نہ نکل جائے پانچ سال کے پہلے والا جدہ ایک گندہ شہر تھا بیارے ابل رہے تھے پانی کے ٹینکر اتنے نظر آتے تھے جتنے آج کل ایئر پورٹ سوسائٹی راولپنڈی میں دکھائی دیتے ہیں۔کرائے اتنے کہ الحفیظ جو گھر چھتیس ہزار کا ملتا تھا اب بیس ہزار ریال سالانہ میں مل رہا ہے۔گڈ گورننس کا حال یہ ہے کہ مکہ کرمہ میں اب بغیر اجازت کے پرندہ نہیں داخل ہو سکتا۔امن امان اور خوشحالی ہے مزدور کی دیہاڑ پہلے پچاس ریال تھی اب ایک سو بیس ریال ہے۔خرچے بڑھے ہیں تو آمدن بھی زیادہ ہوئی ہے۔بجلی پر سبسڈی ختم ہے جو بل دو سو تھا اب آٹھ سو ہے۔لیکن جو تنخواہیں چار ہزار تھیں آٹھ ہیں۔پورے شہر میں گھوم کے دیکھا سڑکیں اتنی صاف ہیں کہ جی چاہتا ہے ان گند سے آشناء آنکھوں کو گند نظر آ جائے۔پاکستان کا پاسپورٹ عزت پا رہا ہے جس کا عملی مظاہرہ ایئر پورٹ پر داخلے کے وقت دیکھا۔شلوار قمیض اور واسکٹ کا مقام بلند ہے۔عمران خان کی بات فخر سے کی جاتی ہے۔حکمران ایماندار ہوں تو عوام کی بھی عزت ہوتی ہے۔ شہر جدہ پر سکون ہے شہباز حسین سے پوچھا کہ زہرہ ایرئے میں امن کیوں ہے از راہ مذاق بولا چودھری اعظم اب پاکستان چلا گیا ہے۔ہ نے تو ان پرانے دوستوں کو ڈھونڈا کھوجا کئی اس دنیا سے چلے گئے کئی پاکستان اس روز سردار رحمت خان کے بیٹے عبدالرحمن سے بات ہوئی اس نے جس گرم جوشی سے استقبال کیا وہ لکھنے قابل ہے اسی روز لحم مندی دوسرے روز گھر بلایا رحمت خان کے سارے بیٹے موجود تھے زبیر ذوالفقار ابرار میرے دوست کی نشانیاں۔وہ بھی شہر کی رونق تھے ایک ایسا سردار کڑلال ایبٹ آباد کا جو اس شہر میں سائیکل پر دیکھا اور وہ دن بھی دیکھا جب یہاں کے وزیر اطلاعات ان کی ستائش کر رہے تھے پرانے دوستوں کی جگہ نئے لوگ سر اٹھا رہے ہیں۔کل مدینہ منورہ میں تھا جہانزیب منہاس انہی راستوں پر گامزن ہیں جن پر ہم تیس سال پہلے گزرے تھے۔پرانوں میں خالد عباس اسدی امتیاز مغل ہیں رونق شہر مدینہ جہانگیر خالد مغل سیٹلائٹ ٹاؤن راولپنڈی جا بیٹھے ہیں۔
۔اللہ کروٹ کروٹ جنت بخشے ان دوستوں کو جو ڈھونڈے سے بھی نہیں ملیں گے رحمت خان یہیں مدفون ہیں۔بریمان کے قبرستان میں فرید خان بھی مدفون ہیں لوگوں نے اس ملک میں ٹھکانے کر لئے ہیں اب مر کے بھی پاکستان نہیں جاتے قاری شکیل تو برسوں پہلے جنت المعلی میں جا بسے۔پاکستانی کمیونٹی کی آبرو ملک محی الدین کی شکل میں موجود ہے جو گاہے گاہے دوستوں سے ملواتے رہتے ہیں پچھلے دنون مرزا گلنار بیگ ایتھوپیا سے واپس جدہ پہنچے تو زہرہ میں بلا لیا مرزا گلنار سے مل کر دلی خوشی ہوئی خمیس مشیط میں ہیں جو یہاں سے آتھ سو کلو میٹر دور ہے۔
بات بٹوں کی ہو رہی تھی جن سے ہمیں پیار ہے امتیاز بٹ سے مجیب بٹ تک محبت ہی پائی ہے لیکن
نواز شریف کی حالت پر اگر یہ لوگ ترس کھائیں تو کوئی اور بٹ نہ میدان میں لے آئیں۔سرور پیلیس میں میاں نواز شریف سے ملنے گیا تو ایک بٹ صاحب نے کہا بادشاہوں سے ملاقات ہو رہی ہے ان کے مزاج کے مطابق بات کرنا جواب دیا بٹ صاحب نہ یہ بادشاہ ہے نہ میں درباری مشرف نے ظلم کیا ہے ایک مظلوم کا ساتھ دوں گا۔اور میاں صاحب بڑے کمرے میں یہ بات سن رہے تھے بلایا اور کہا چودھری صاحب یہ کیا لگ رہے ہیں جواب دیا ایک ایسا جلاد جس کے ہاتھ میں تلوار نہیں۔جس پر ایک قہقہ لگا آخر کب تک بٹ صاحبو تم اس شخص سے بدلہ لو گئے جدہ والے بٹ،لاہور کے بٹ گجرانوالہ کے پومی اور توفیق بٹ۔اور اب پنڈی کے بٹ۔دہشت گردی کا تو سنا تھا لیکن یہ بٹ گردی پہلی بار دیکھ رہا ہوں۔یاد رہے یہ وہ پومی بٹ اور توفیق بٹ تھے جنہوں نے گجرانوالہ سے عمران خان کے گزرنے والے قافلے پر حملہ کرایا تھا۔جس میں اللہ تعالی کا خصوصی کرم ہوا عمران خان بچ گئے۔جب رانا ثناء اللہ کی گرفتتاری کو نونئے لوگ سیاسی انتقام کہتے ہیں تو مجھے یہ لوگ یاد آ جاتے ہیں جو آج بھی مزے سے دھڑلے سے سیاست بھی کر رہے ہیں اور کاروبار بھی۔البتہ چوری کی گیس اور چوری کی بجلی بند ہونے کے بعد یہ لوگ کہہ رہے ہیں کاروبار تباہ ہو گئے ہیں وہ تو ہونے ہی تھے۔شہر کے لوگ کہتے ہیں گیس کے ایک بڑے سکینڈل میں ایک معروف اداکار نے کمیشن لے کر ان لوگوں کی جان چھڑائی ہے۔بٹ بٹ کے کام تو آتا ہے ناں،شہر گجرانوالہ بھی کمال کا شہر ہے اسی شہر میں اٹھان ہوئی بٹوں کے درمیان زندگی گزاری۔دستگیر خان کے شہر میں اللہ عمر دراز کرے میرے والد صاحب کی ان سے یاد اللہ تھی جس کو بخوبی نبھایا اسی سے اوپر کے ہیں۔ان پر ایک جھوٹا الزام ہے کہ انہوں نے کتیا کے گلے میں فاطمہ جناح کی تصویر لٹکوا کر شہر میں گھمایا۔نفرت کے دنوں میں جب ایوب خان کو کتا کہا جا رہا تھا مخالفین محترمہ فاطم جناح کے خلاف بھی نعرہ زن تھے لیکن یہ بات بلکل غلط ہے اور میں پی ٹی آئی کا ہوتے بھی اس بات کی تردید کرتا ہوں کہ کہ غلام دستگیرخان نے یہ کام نہیں کیا یہ بات درست ہے کہ وہ کنونشن لیگ کے حمائتی تھے ایوب خان کے ساتھ تھے جو ہونا کوئی جرم نہیں تھا۔سارے بٹ گلو بٹ نہیں ہوتے جیسے سارے گجر رحمت علی نہیں ہوتے کوئی جگے بھی ہوتے ہیں۔جب یہ تحریر لکھ رہا ہوں تو مجھے سعید بھٹی(بٹ) مجیب الرحمن بٹ اور پنڈی کے فخر الدین بٹ بھی یاد آ رہے ہیں جن کے ساتھ بیٹھ کر اٹھو تو خوشبو سفر کرتی ہے،بٹوں کے ساتھ ملک کا اٹھنا بیٹھنا کیا رنگ لایا ہے۔اسے کہتے ہیں بٹ تمیزیاں