سویڈش انسٹیٹیوٹ ف اسلامک سائنس کا کشمیری مظلوموں‌کے لیے عملی قدم

Arif Mahmud Kisana
سٹاک ہوم (رپورٹ و تصاویر شہزاد انصاری) مقبوضہ کشمیر میں مظلوم کشمیری گھروں میں محصور ہیں، بھارت کے جبر کا آج 35 واں روز ہے۔ مسلسل ایک ماہ کے کرفیو سے زندگی عذاب بن گئی ہے، کھانے پینے کی اشیا ختم ہوگئیں، ادویات کی قلت کا سامنا ہے۔ پوری دنیا میں مسلمان اور انسانیت کا درد رکھنے والے افراد کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے مظاہرے کر رہے ہیں۔ بدقسمتی سے دنیا بھر میں ہونے والے احتجاج کا ظالم پر کوئی اثر نہیں ہوا اور اس کا ظلم اب بھی جاری ہے ۔
اپنے پیارے کشمیری بھائیوں اور بہنوں سے اظہار یکجہتی اور ظلم سے نجا ت حاصل کرنے کے لیے سویڈش انسٹیٹیوٹ آف اسلامک سائنس نے اسٹاک ہوم میں تنازعہ کشمیر کی اصل وجوہات پرروشنی ڈالنے کے لیے سویڈن کے دانشوروں کو مدعو کیا ۔ تقریب کا باقاعدہ آغاز جناب ابو بکر بٹ نے تلاوت قرآن شریف سےکیا۔ سویڈش انسٹیٹیوٹ آف اسلامک سائنس کی روئے رواں ڈاکٹر بیلا ثمرین نے کہا کہ دعا مومن کا عظیم ہتھیار ہے، جب انسان دشمنوں میں گھر جاتا ہے، ظالم کے جبر سے پریشان ہوتا ہے۔ مصیبتیں چاروں طرف منڈلا رہی ہوتی ہیں‘ اس موقع پر کسی ہتھیار کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ دشمن کا مقابلہ کرکے اُسے شکست دی جاسکے ، لیکن جو ہتھیار اس پریشانی اور تنگ دامانی میں کام آتا ہے وہ دعا ہے۔

ڈاکٹر عارف کسانہ نے جامع تقریر کی جس میں انہوں نے بتایا کہ تقسیم ہند کا ایجنڈا اور مسئلہ کشمیر کا پس منظر کیا ہے ۔ اور اس مسئلے کو دنیا میں اجاگر کرنے کی حکمتی عملی کیا ہونی چاہیئے ۔ ڈاکٹر عارف کسانہ کی تقریر کو دونوں ممالک پاکستان اور بھارت سمیت کشمیریوں کو سننا چاہیئے اور واویلا مچانے سے پہلے اصل حقائق کی تحقیق کرنی چاہیئے۔ کونسلر جناب برکت حسین صاحب کا کہنا تھا کہ کشمیر کے حوالے سے ہونے والے مظاہروں میں آپ کا مقصد واضح ہونا بہت ضروری ہے، تاکہ آپ کا پیغام دنیا میں امن کی بات کرنے والوں تک درست انداز میں پہنچ سکے۔ڈاکٹر عالیہ عامرجو ماہرِلسانیات ہیں اور ان کا تعلق کشمیر سے ہے کہا کے کرفیو، لاک ڈاؤن، جگہ جگہ قابض فوج کے باعث پوری وادی قید خانہ بن چکی ہے۔ سب سے زیادہ ناقابل قبول بات یہ ہے کہ انٹرنیٹ ، ٹیلیفون ، میڈیا ، فارمیسیوں اور کھانے پینے کی اشیاء وغیرہ جیسی بنیادی وسائل سے کشمیری محروم ہیں اور کشمیری باشندوں کا بیرونی دنیا سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔ ہمیں ان کے حقوق کی بحالی کے لیے متحرک ہونے کی ضرورت ہے۔ تقریب سے سویڈش روہنگا ایسوسی ایشن کے صدر ابوالکلام، شفقت کھٹانہ ایڈووکیٹ اور ظفر چوہدری نے بھی خطاب کیا۔ آخر میں اجتماعی دعا کا اہتمام کیا گیا ، جس میں کشمیر سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں اور ظلم سے دوچار افراد کے لیے ڈاکٹر عاعف کسانہ نے خصوصی دعا کی گئی۔
بیرون ملک پاکستانی اور کشمیر کمیٹیوں کی گروپنگ اور دھڑے بندیاں مسئلہ کشمیر کو شدید نقصان پہنچا رہی ہیں۔ بیرون ملک نام نہاد کشمیری رہنماؤں کو کشمیر کے اس حساس مسئلہ پر اپنی ترجیحات کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ افسوس ہم آج بھی فوٹو سیشن اور خود نمائی کو ترک کرنے کو تیار نہیں۔ اس خودنمائی نے ہمیں اندر سے کھوکھلا اور ہماری صلاحیتوں کو زنگ آلود کردیا ہے۔ دعا ہے رب جلیل سے کہ ہمیں خودنمائی کی اس وبا سے دور کراور حقیقی معنوں میں کشمیر سمیت دیگر اہم قومی معاملات پر متحد ہونے کی توفیق عطار فرما تاکہ کشمیر اور پاکستان کے خلاف لابنگ کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جا سکے۔

اپنا تبصرہ لکھیں