امریکہ، ایران کشیدگی گزشتہ تین سال سے جاری تھی جو اب عروج پر ہے، اس کشیدگی کو کم کرانے کے لئے وزیراعظم عمران خان نے آف ریمپ ڈپلومیسی کی اور کامیاب بھی رہے، وزیراعظم عمران خان کی ان کوششوں کا نہ صرف عالمی سطح بلکہ امریکی دفتر خارجہ نے بھی اب اعتراف کیا ہے۔
انہی کوششوں کے نتیجے میں ایران اور امریکہ اپنے موقف میں لچک لائے جس کے بعد ایران پر پہلے سے عائدپابندیوں میں نرمی اور مزید امریکی پابندیاں لگانے سے گریز کیا گیا لیکن امریکی میزئل حملہ میں ایرانی القدس فورس کے سربراہ میجر جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت نے وزیراعظم عمران خان کی کوششوں پر پانی پھیر دیا اور امریکہ ایران تعلقات میں ایک دم تناو¿، کشیدگی اور نہ بھرنے والی خلیج حائل ہو گئی جسے پاٹنا اب فریقین کے سوا کسی کے لئے ممکن نہیں رہا۔
ایرانی جرنیل قاسم سلیمانی ایران کی سب سے زیادہ بااثر شخصیت تھے اگر کہا جائے کہ امام خمینی کے بعد وہ سب سے زیادہ رسوخ رکھتے تھے تو غلط نہ ہو گا۔ ان کی ہلاکت پر ایران کا غم و غصہ بالکل جا ئزہے اس سانحہ سے ایران کو ایک سفارتکار اور ایرانی مفادات کا تحفظ کرنے والے جرنیل سے محروم ہونا پڑا۔ جنرل سلیمانی کی ہلاکت کے اثرات سے دنیا بھی محفوظ نہیں رہے گی امت مسلمہ تو ابھی سے تقسیم دکھائی دیتی ہے، سعودی عرب کھل کر امریکہ کی حمائت کر رہا ہے جبکہ ترکی اور ملائیشیا ایران کے حامی ہیں، حکومت پاکستان نے غیر جانبدار رہنے کا دانش مندانہ فیصلہ کیا۔ قبل ازیں افغانستان کے حوالے سے پاکستان نے دو مرتبہ امریکہ کا ساتھ دیا اور دونوں مرتبہ اربوں ڈالر کا مالی اور بے بہا جانی نقصان برداشت کیا، افغان مہاجرین کی لاکھوں کی تعداد میں آمد سے پاکستان میں امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوا ، جرائم کی شرح میں اضافہ ہوا، اسلحہ منشیات کی سمگلنگ بڑھی، خمیازہ آج تک ملک و قوم بھگت رہے ہیں۔
ایرانی صوبہ سیستان جو کبھی بلوچستان کا حصہ ہوا کرتا تھا اور اب بھی وہاں بلوچوں کی بڑی تعدادآباد ہے، امریکہ،ایران جنگ کے خطرے کے باعث وہاں سے بڑی تعداد میں بلوچ پاکستان منتقل ہو رہے ہیں جس سے بلوچستان میں فوری طور پرگھروں کے کرائے بڑھ گئے ہیں، انتظامی بحران کا بھی اندیشہ موجود ہے۔ 950 کلو میٹر پاک ایران سرحد کے قریب بسنے والے پاکستانی اور ایرانی بلوچوں میں قریبی رشتہ داری بھی ہے خیال کیا جا رہا ہے کہ بڑی تعداد میں ایرانی مہاجرین پاکستان منتقل ہو سکتے ہیں، ایران پاکستان کے بارڈر کے آر پار بلوچوں کی کیفیت وہی ہے جو پاکستان افغانستان کی سرحد کے ساتھ آباد پختونوں کی ہے۔
ایران پر جنگ مسلط کرنے والا دنیا کا سب سے طاقتور حکمران امریکی صدر ٹرمپ نفسیاتی مریض ہے، امریکہ کے 27 معروف ماہرین نفسیات نے امریکی صدر کو عالمی امن کے لئے خطرہ قرار دیدیا ہے، ان ماہرین کے مطابق صدر ٹرمپ ”سوشیوپیتھی“ نامی بیماری میں مبتلا ہیں اور اس بیماری کے زیر اثر وہ ملک کو تباہ کن جنگ کی طرف دھکیل سکتا ہے اس حوالے سے امریکہ میں کتاب بھی شائع ہو چکی ہے جس کی مصنفہ بینڈلی کانگریس کو ٹرمپ کی دماغی حالت بارے بریفنگ بھی دے چکی ہیں۔ ماہرین نفسیات کا دعویٰ ہے کہ ٹرمپ کی دماغی حالت امریکی قوم اور دنیا کے امن کے لئے واضح خطرہ ہے اس کتاب کے مارکیٹ میں آنے سے امریکی سیاست میں بھونچال آگیا تھا جس کے بعد ٹرمپ کا دماغی معائنہ کرانے کا مطالبہ زور پکڑ گیا تھا۔
پاسداران انقلاب کے سربراہ اور فاطمیون بریگیڈ کے بانی قاسم سلیمانی اور طالبان کے سابق امیر ملا اختر منصور پر ہونے والے حملوں میں مماثلت پائی جاتی ہے دونوں کو ریپر ایم کیو نائن ڈرون کے ذریعے نشانہ بنایا گیا،دونوں حملوں کے لئے قریبی ساتھیوں کی مخبری کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا رہا، امریکہ کا سب سے بڑا ڈرون فلیٹ بگرام میں موجود ہے جبکہ ایران کے ساتھ کشیدگی کے بعد امریکہ نے قازقستان میں نئے فوجی اڈے قائم کرنے کے لئے مذاکرات شروع کر دیئے ہیں، طالبان نے بھی امریکہ کو افغان سرزمین استعمال کرنے پر انتباہ جاری کر دیا ہے۔
ایران اور طالبان میں قربت کا سہرہ بھی جنرل قاسم سلیمانی کے سر بندھتا ہے، جنرل سلیمانی نے جب فاطمیون بریگیڈ کے رضا کار بھرتی کر کے شام، عراق، لبنان میں مقدس مقامات کی حفاظت کی ذمہ داری اٹھائی تو اس سلسلے میں وہ افغانستان بھی گئے اور وہاں سے بھی نوجوان رضا کار بھرتی کئے، فاطمیون فورس میں 20 ہزار ایرانی رضا کار ہیں تو 15 ہزار کے قریب افغانی ہیں، طالبان وفد کے دورہ ایران اورایرانی حکام سے ملاقاتوں کا اہتمام بھی جنرل قاسم سلیمانی نے کیا اب اگر ایران نے امریکہ کے خلاف کسی اقدام کا فیصلہ کیا تو براہ راست امریکہ پر حملہ تو ممکن نہیں مگر وہ عراق، لیبیا اور افغانستان میں امریکی اہداف، تنصیبات اور فوجیوں پر حملہ کر سکتا ہے اس خدشہ کے تحت امریکہ نے عراق اور افغانستان میں اپنی سرگرمیاں محدود کر دی ہیں۔
امریکہ نے ایران کے ساتھ محاذ آرائی کر کے تاریخی غلطی کا ارتکاب کیا ہے، امریکہ کا الزام ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی ہزاروں افراد کے قاتل تھے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی نے امریکہ کے ساتھ مل کر القاعدہ اور داعش کا مقابلہ کیا اور ان کی قوت کو کمزور کیا اب بھی عراق، لیبیا، یمن، شام میں جنرل سلیمانی امریکہ دشمنوں کے خلاف لڑ رہے تھے۔ مشرق وسطیٰ میں صرف ایک سعودی عرب ہے جو امریکہ کا حامی ہے اور ایران کی سعودیہ کے ساتھ مخاصمت زمانہ قبل از اسلام سے ہے، عرب و عجم میں دشمنی اور اختلافات تاریخ کا حصہ ہیں جنہیں تقویت فتح ایران کے بعد ملی، حضرت علی اور امیر معاویہ میں اختلافات نے بھی اس دشمنی کو بڑھاوا دیا،
اس وقت مسلمانوں کی قیادت کے تین دعویدار ہیں، ترکی خلافت عثمانیہ کا احیا ایران خلافت فاطمیہ اور خلافت علوی کو زندہ کرنے اور سعودی عرب صرف اس بنیاد پر کہ مسلمانوں کے مقدس ترین مقامات مکہ اور مدینہ وہاں ہیں مسلمانوں کی قیادت کے خواہش مند ہیں۔ مشرق بعید میں ملائیشیا کے مہاتیر محمد بھی مسلمانوں کے اتحاد کے خواہش مند ہیں اور یہ سب کسی نہ کسی مسئلہ پر ایک دوسرے کے مخالف ہیں اس وقت پاکستان واحد غیر جانبدار ملک ہے جو امریکہ سے دشمنی کا متحمل نہیں ہو سکتا،سعودی عرب سے مخاصمت نہیں کر سکتا اور ایران کو بھی ناراض نہیں کر سکتا کہ دونوں برادر اسلامی ملک ہیں۔