امریکہ میں 1965ءسے 1969ءکے دوران ایک سفاک قاتل نے کئی لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا اور پولیس اور میڈیا کو کسی خفیہ زبان میں خطوط لکھتا رہا۔ نہ کبھی یہ نامعلوم قاتل پکڑا گیا اور نہ ہی اس کے بھیجے گئے یہ کوڈز کی زبان میں لکھے ہوئے خطوط پڑھے گئے۔ اب پہلی بار کئی ممالک کے ماہرین کی ایک ٹیم اس کا ایک خط پڑھنے میں کامیاب ہو گئی ہے جس میں اس قاتل نے ایسی باتیں لکھی تھیں کہ سن کر رونگٹے کھڑے ہو جائیں۔ میل آن لائن کے مطابق پولیس کے مطابق اس قاتل نے ’بے ایریا‘ میں 5لوگوں کو قتل کیا تھا تاہم خود قاتل نے اپنے اس خط میں 37لوگوں کو قتل کرنے کا اعتراف کر رکھا ہے۔
امریکہ، آسٹریلیا اور بیلجیم کے ماہرین کی ٹیم قاتل کے جس خط کو پڑھنے میں کامیاب ہوئی ہے، یہ خط اس نے 1969ءمیں سین فرانسسکو کرونیکل نامی اخبار کو لکھا تھا۔ اس نے پولیس اور میڈیا کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ”مجھے امید ہے کہ تم مجھے پکڑنے کی جدوجہد سے لطف اندوز ہو رہے ہوں گے۔ اس خط میں قاتل نے تمام مقتولین کو اپنے ’غلام‘ قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ ”جب میں جنت میں جاﺅں گا تو میرے یہ غلام وہاں میری خدمت کریں گے۔ اسی مقصد کے لیے میں نے انہیں پہلے ہی وہاں بھیج دیا ہے۔“ پکڑے جانے اور سزائے موت ہونے کے متعلق قاتل خط میں لکھا ہے کہ ”مجھے گیس چیمبرکا کوئی خوف نہیں ہے۔“ ایف بی آئی کی طرف سے بھی اس خط کے ’ڈی کوڈ‘ ہونے کی تصدیق کر دی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ خط امریکہ کے اشاروں کی زبان کے ماہر ڈیوڈ اورینچک، آسٹریلوی ریاضی دان سام بلیک اور بیلجیم کے سافٹ ویئر ڈویلپر جیرل وین ایکے نے ’ڈی کوڈ‘ کیا ہے۔