ڈاکٹر شہلا گوندل
ہمارے کمرے کا نمبر 107 تو تھا ہی لیکن اس کے ساتھ کمروں پر مختلف ملکوں کے نام بھی لکھے ہوۓ تھے- چین، جاپان، برطانیہ وغیرہ- ہمارے کمرے کا نام تائیوان تھا۔ارے وہی نام جو پہلی بار میں نے اپنی کویت پلٹ خالہ جان سے سنا تھا- ان کی آواز میری سماعتوں سے ٹکرائی، یہ استری جاپان کی نہیں بلکہ تائیوان کی ہے- اسطرح ہم لوگ ناروے میں بیٹھے بیٹھے تائیوان پہنچ گۓ- میں نے اور رضوانہ نے ایک بنک بیڈ پر قبضہ جمایا- نیچے والے بیڈ پر میں اور اوپر والے پر رضوانہ براجمان ہو گۓ- گھر سے لائی ہوئی چادرو ں کو بستروں پر بچھایا،تکیوں اور رضائیوں پر غلاف چڑھاۓ اور اپنے سامان کو الماریوں میں رکھا-
کمرے کے اندر ہی ایک صاف ستھرا باتھ روم بھی تھا- فریش ہو کر ہم لوگوں نے کامن روم کا رخ کیا- کھانے میں بچوں کو ساسیجز والے برگر دیئے گۓ جبکہ بڑوں کو پراٹھے والے کباب رول ملے- یہ سب سامان روبینہ باجی اپنے ساتھ لائیں تھیں- بھوک بھی لگی ہوئی تھی اور رول ذائقےدار بھی بہت تھے اس لیے کھانے کا لطف دوبالا ہو گیا- اس کے بعد تھوڑی گپ شپ اور ہلکی پھلکی جان پہچان کا دور چلا- پھر ہم لوگ واپس اپنے کمرے میں آگۓ- گھر بات کی اور بچوں کو تسلی دی کہ ان کی مائیں جلد گھر واپس آ جائیں گی- پھر تیار ہوۓ اورسیمینارہال پہنچے تو وہاں پر صوفیہ اور عظمی اپنے لیکچرز کے ساتھ موجود تھیں
اس سیمینار کا مقصد عورتوں کی ذہنی صحت کے بارے میں معلومات فراہم کرنا تھا- خاص طور پر کرونا کی صورتحال میں گھروں میں بند رہنے کی وجہ سے سب لوگوں میں ڈپریشن کا خدشہ کافی بڑھ گیا تھا-صوفیہ نے ڈپریشن کی الیکٹروکیمیکل نوعیت کے بارے میں کافی سیر حاصل گفتگو کی- اس کے بعد عظمی نے ڈپریشن کی وجوہات پر روشنی ڈالی اور ایک فارم دیا جس کے سوالوں کے ایماندارانہ جواب دے کر ہم خود اپنی ذہنی صحت کا اندازہ لگا سکتے تھے- یہ سیمینارذہنی تناؤ سے بچنے کے لیے بنیادی معلومات فراہم کرنے میں کافی ممدو و معاون ثابت ہوا-
رات کے کھانے میں بہت ہی لذیذ سوپ اور ڈنر رول تھے-سب لوگ نہ صرف کھانے سے لطف اندوز ہوۓ بلکہ بہترین چاۓ کا دور بھی چلا- کھانے کے دوران ہلکی پھلکی بات چیت بھی ہوئی- اسی دوران شاہدہ نے مختلف گروپ بنا دیے تھےجن کے ذمے باری باری مختلف اوقات میں کھانے کے انتظامات میں ہاتھ بٹانا تھا- میرے ذمے تیسرے دن ناشتے کے انتظامات میں مدد کرنا تھا-
اگلی صبح ہم لوگوں نے انسپیریا میوزیم جانا تھا اس لیے رات کو جلدی سونا ضروری تھا- باقی لوگ تو شاید رات گۓ تک گپ شپ میں مصروف رہے لیکن میں اور رضوانہ جلد ہی کمرے آگۓ۔ عابدہ کی کچن میں ڈیوٹی تھی اس لیے وہ کچن میں آلو چھیل رہی تھی- صبح کے ناشتے کے لیے آلو کی بھجیا بنانا تھی- جب میں اوررضوانہ کمرے میں پہنچے تو بن یامین اپنے بنک بیڈ کے نیچے والے بستر پر بیٹھا کوئی کتاب پڑھ رہا تھا-اس کو اردو بالکل نہیں آتی تھی اور مجھے نارویجین نہیں اس لۓ میں نے رضوانہ سے کہا کہ اسے کہو کہ وہ اوپر والے بستر پر چلا جاۓ تاکہ جب اسکی ماں کمرے میں آۓ تو وہ آرام سے نیچے والے بستر پر سو جاۓ اور اسے کوئی دقت نہ ہو- رضوانہ نے اسے نوشک میں اوپر جانے کے لیۓ کہا لیکن اس نے سنی انسنی کر کے منہ پر رضائی ڈالی اور دیوار کی طرف کروٹ لے کر سو گیا-ہم دونوں نے عشاء کی نماز ادا کی اور اپنے بستروں پر لیٹ گۓ لیکن میں اس فکر میں گھل رہی تھی کہ عابدہ آ کر سوۓ گی کیسے کیونکہ اتنا تو میں جان چکی تھی کہ میری طرح وہ بھی اوپر والے بستر پر نہیں چڑھ پاۓ گی-خیر جب وہ کمرے میں آئی تو ہم نے یہ حل نکالا کہ اوپر والے بستر سے گدا اتار کے فرش پہ بچھا دیا اور یوں ہم سکون سے سوۓ-نیند کی کیفیت ملی جلی رہی- شاید ہم عمر کے اس حصے میں داخل ہو رہے ہیں جب جگہ بدلنے سے نیند خراب ہو جاتی ہے- رضوانہ کی نیند خراب کرنے کے لیے تو ہمارے خراٹے ہی کافی تھے-
علی الصبح ہم لوگ اٹھے اور فجر کی نما ز اداکی- واٹس ایپ پر پیغام موصول ہوا کہ ہمارے ساتھ آنے والی نارویجین فیملی کے صاحب، سیگر، جنگل کی سیر پر جا رہے ہیں جو شمولیت کا خواہاں ہو وہ کامن روم میں آ جاۓ- اتنی سویرے سویرے اور ٹھنڈ میں جنگل کی سیر کی بالکل ہمت نہیں تھی اس لیۓ اس پیغام کو نظرانداز کر کے اپنے میاں صاحب کا نمبر ملا دیا- وہ ناشتہ کرنے لگے تھے- ان سے بچوں کی خیریت دریافت کی، اپنا احوال سنایا اور باقی بات چیت کی-اتنی دیر میں ناشتہ تیار ہے کا پیغام موصول ہوا اور ہم لوگ ناشتے کے لیے کامن روم میں پہنچ گئے- ناشتہ بنانے والی ٹیم نے روبینہ باجی کی سرکردگی میں کمال کر دیا تھا-
آلو کی بھجیا، چنے، آملیٹ، پراٹھے، سلاد’ بریڈ، چاۓ، کافی———اللہ کی کونسی نعمت تھی جو موجود نہ تھی- ہم نے مزے سے گرما گرم پراٹھوں کے ساتھ آلو کی بھجیا اور چنوں کا ناشتہ کیا- رضوانہ نے چاۓ کا کپ لیا اور میں نے اپنے لیے بلیک کافی بنائی۔ آج ہمارے ذمے کوئی کام نہیں تھا اس لیے کھا پی کر برتن دھونے والے برتنوں کی ٹوکری میں رکھے اور واپس اپنے کمرے میں آ گۓ- تیار ہوۓ اور ریسٹ ہاؤس کی راہداریوں میں کھڑے ہو کر تصویریں بنائیں- یہ ریسٹ ہاؤس ایک بہت ہی خوبصورت جھیل کے کنارے واقع تھا- ساتھ ہی ایک چشمہ اور جنگل بھی تھا-سامنے ایک وسیع و عریض لان تھا جس میں ایک پھیلا ہوا درخت بھی تھا-فی الحال ہم نے بالکنیوں میں کھڑے ہو کر تصویریں بنانے پر ہی اکتفا کیا اور گرد و نواح کی سیر کو آئیندہ کے لیے موقوف کر دیا- اسی اثناء میں ٹیکسیاں روانگی کے لیے تیار ہیں کا پیغام موصول ہوا اور ہم لوگ اپنا بیگ اٹھاۓ کمرہ لاک کر کے ریسٹ ہاؤس کے صدر دروازے کے سامنے پہنچ گۓ- یہاں یہ بتاتی چلوں کہ میرے بیگ میں کولڈ ڈرنک کے کین اور رضوانہ کے بناۓ ہوۓ کباب رول بھی تھے- کباب وہ گھر سے لائی تھی اور پراٹھے اس نے صبح کچن میں تل لیے تھے- اس کے علاوہ میرے بیگ میں ڈرائی فروٹ’ چاکلیٹ اور بسکٹوں کا بھی پورا سٹاک موجود تھا- ہم ہر طرح سے میوزیم کی سیر کے لیے تیار تھے- ہم کیسے میوزیم پہنچے اور وہاں کیاکیا دیکھا، یہ جاننے کے لیے انتظار کیجیۓ اگلی قسط کا- جاری ہے