دیے کی لو میں رستے تھے
شاعرہ:شعاع نور
یہ دل کچے مکاں جیسا
مری غربت کے لمحوں میں ارادے ہار کی صورت
کبھی آڑھی کبھی ترچھی لکیریں کھینچ لینے سے کوئی شاعر نہیں بنتا
ورق پر ان گنت ان دائروں
میں رنگ بھر کر یوں سمجھ لینا
کہ تم فنکار بن بیٹھی
سنو ایسے نہیں ہوتا
حنائی ہر ورق کے ہونٹ جانے کب کہاں سوکھے
عبارت بطن میں تشنہ لبی بھر کے تھی لوٹ آئی
کوئی تو ہو جو پتھر کو بدلنے کی ہنر مندی سکھا جائے
مجھے اپنا بنا جائے
کوئی تارا کوئی غنچہ کوئی ریشم
کوئی منظر
مری بے سمت کاوش کو کوئی منزل دکھاجائے
سسکتی شام میں بجھتے دیے
نے دل سے مانگا تھا
تبھی تو مضطرب لو میں کسی کا عکس جاگا تھا
بھلا سورج بھی مرتا ہے
کوئی آواز آئی تھی
یہ منظر رنگ بدلیں گے
قلم کے دل میں سوکھی روشنائی پھر سے جاگے گی
نجانے کون ہے جو زینہ در زینہ قدم رکھ کر دیے کی لو میں اترا تھا
وہی سارہ شگفتہ تھی
وہی سارہ شگفتہ جو
سمندر آنکھ میں بھر کر خزاں موسم سے ملتی تھی
مسلسل تلخیوں سے برسر پیکار وہ سارہ
کہ جس کے دل کی دھرتی پر ستارے ٹمٹماتے تھے
جو کہتی تھی کوئی آہٹ تو رہنے دو مری سنسان آنکھوں میں
تلاشی موت کی لینا کبھی آساں نہیں ہوتا
مری آنکھوں میں دیکھو دل نے
کیسے خودکشی کرلی
سو یہ آنکھیں یہ میرا دل
تم اس انسان کو دینا
جو خالی ہاتھ بیٹھا ہو
دیے کی تھرتھراتی لو میں پھر اک عکس اترا تھا
قبائے سرخ میں لپٹی ہوئی پروین شاکر تھی جسے تزئین کی خاطر گلستاں نے پکارا تھا
کسی وعدے کی آہٹ پر
تمنا دل میں لے کر
شام کی دہلیز پر بیٹھی
وہ خوشبو کا پتہ کرتی ہوا سے بات کرتی تھی
جو کہتی تھی کہ خاموشی کی بھی آواز ہوتی ہے
دیے کی لو میں اتری تھی
سنہرے پھول کے زیور پہن کر
مسکراتی تھی
جو اک حرف تسلی کی تمنائی رہی برسوں
جو کہتی تھی تمھاری زندگی میں میں کہاں پر ہوں
جو کہتی تھی کسی درویش سے
اس کا قلم تم چھین کر دیکھو
بغاوت کو مساموں میں ذرا تم روک کر دیکھو
محبت اور سچائی
کا ورثہ منتقل کرنے کی خواہش میں
جو سارے خوبصورت سچ سکھاتی تھی
دیے کی لو ابھی بھی مضطرب بے چین دکھتی تھی
عقب سے پھر کوئی آواز آئی تھی
سنو کیا نظم لکھو گی
مگر آغاز سے پہلے تمھیں اتنا بتادوں میں
ہواؤں کی طرح نظمیں بدل لیتی ہیں رستے بھی
پتہ تو مل ہی جائے گی
دیے کی لو میں ثروت تھا
وہی ثروت
کسی بارش میں بیٹھی قبر کی صورت بناتا تھا
وہی ثروت
جلا وطنی کا دکھ سہتی ہوئی آنکھوں میں دکھ کو یوں پروتا تھا
کہ ہر اک لفظ روتا تھا
وہی ثروت دیے کی لو میں اترا تھا
اکھڑتی سانس کو جینا سکھانے
کی تگ و دو میں جو خود کو آزماتا تھا
جواک مرتے ہوئے دل کی بڑی قیمت چکاتا تھا
دمکتے مسکراتے تمتماتے ان گنت سچ تھے
مری تنہائی کے ساتھی
جو دل کی دھڑکنیں لکھتے تھے
اور پھر بانٹ دیتے تھے
جو اپنی سطر میں کرنیں پروتے تھے
جو برفیلی چٹانوں پر
لگا کر ضرب کہتے تھے
سنو اس روشنی کو تم بچاؤ گے
اکھڑتی سانس کو جینا سکھاؤ گے
کہاں خاموش تھا شہر سخن
مٹی تلے جو دیپ رکھے تھے
وہ جلتے تھے
مری آنکھوں میں پھیلا درد کا قطرہ ضمانت تھا
دیے کی لو میں رستے تھے