کہانی: ڈاکٹر شہلا گوندل
ہمارے گھر میں کیا بلکہ تقریباً بچوں والے ہر گھر میں ایک مسئلہ ہوتا ہے جو بظاہر چھوٹا سا ہےلیکن ہر بار سر چڑھ کر بولتا ہے ۔
جرابوں کے جوڑے نہ ملنا!
چھ افراد کے خاندان میں ہر طرح کی جرابیں—بچوں کی، بڑوں کی، کاٹن کی، اون کی، رنگ برنگی، چھوٹی بڑی—اور دھلائی کے بعد ہمیشہ یوں لگتا جیسے وہ خود بخود ایک دوسرے سے الگ ہو جاتی ہیں۔
پچھلے ہفتے میں نے فیصلہ کیا کہ اس مسئلے کو بچوں کے ساتھ مل کر نہ صرف حل کیا جائے بلکہ انہیں کھیل کھیل میں کچھ سبق بھی دیا جائے۔
“دانیال، خولہ!” میں نے انہیں بلایا۔ دونوں دوڑتے ہوئے آئے، ان کے چہرے تجسس سے بھرپور تھے۔
“جی ماما؟”
“ایک مشن ہے!” میں نے سنجیدگی سے کہا۔ “سارے گھر میں جہاں کہیں دھونے والی جرابیں پڑی ہوں، مجھے لا کر دو۔ ہر ایک جراب کے بدلے تمہیں ایک NOK ملے گا۔”
یہ سننا تھا کہ دونوں خوشی سے اچھل پڑے۔ “سچ ماما؟” خولہ نے حیرت سے پوچھا۔
“بالکل سچ!” میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
پھر کیا تھا، دونوں ایک مہم پر نکل پڑے۔ خولہ نے کونے کھدروں، بیڈ کے نیچے، صوفوں کے پیچھے، اور دھونے والے کپڑوں کی باسکٹ سے جرابیں نکال نکال کر جمع کرنا شروع کر دیا۔ دانیال نے بھی اپنی طرف سے خوب محنت کی، مگر ہوشیاری دکھاتے ہوئے دھلی ہوئی جرابوں کے شاپر سے بھی کچھ جرابیں نکال کر اپنے ڈھیر میں شامل کر لیں۔
میں ایک طرف کھڑی ان کی پھرتیاں دیکھ رہی تھی۔ دانیال کی ہوشیاری پر ہنسی بھی آئی اور غصہ بھی۔
“یہ فاؤل پلے ہے، دانیال!” میں نے مصنوعی خفگی سے کہا۔
“سوری ماما!” وہ مسکراتے ہوئے بولا، لیکن اس کے ہاتھ مسلسل حرکت میں تھے۔
جب ان کے ڈھیر تیار ہو گئے تو میں نے اگلا حکم جاری کیا۔
“اب یہ کرو کہ دھلی ہوئی جرابوں کے جوڑے بناؤ۔ ہر ایک جوڑے کے بدلے تمہیں دو کراؤن ملیں گے!”
یہ سن کر ان کی خوشی دوگنی ہو گئی۔ اس بار خولہ زیادہ سنجیدہ اور محتاط تھی، بالکل ایک جیسی جرابیں جوڑنے پر دھیان دے رہی تھی۔ دانیال نے ایک بار پھر چالاکی دکھانے کی کوشش کی اور مختلف رنگ اور سائز کی جرابوں کے جوڑے بنانے لگا، مگر میں نے اسے ٹوکا۔
“دانیال، دھوکہ دینا ٹھیک نہیں۔ ایمانداری سے کام کرو!”
پھر دونوں نے محنت سے کام کیا۔ “دو، چار، چھ، آٹھ…” گنتی کا یہ عمل نہ صرف دلچسپ تھا بلکہ ان کی توجہ اور لگن دیکھ کر میرا دل خوش ہو رہا تھا۔
آخر کار، حساب مکمل ہوا۔ دانیال نے پہلے جرابیں اکٹھی کر کے انچاس NOK کمائے، اور جوڑے بنا کر مزید چھیالیس NOK۔ یوں اس کے کل پچانوے کراؤن بنے۔ خولہ نے جرابیں اکٹھی کر کے چالیس NOK اور جوڑے بنا کر مزید چالیس NOK کمائے۔ اس طرح اس کے کل اسی کراؤن بنے۔ دونوں نے اپنے پیسوں کا ٹوٹل کیا اور خوشی خوشی مجھے بتایا۔
“شاباش!” میں نے کہا۔ “خولہ، تمہاری توجہ اور ترتیب زبردست تھی۔ اور دانیال، تم بہت پھرتیلے ہو، مگر یاد رکھو کہ ایمانداری سے کام کرنا سب سے اہم ہے۔”
اس کے بعد دونوں نے جرابوں کے جوڑوں کو الگ الگ کر کے ہر فرد کے خانے میں رکھا۔ یہ وہ کام تھا جو ہمیشہ میں اکیلے کرتی تھی، لیکن آج بچوں نے نہ صرف میرا بوجھ بانٹا بلکہ مزے مزے میں بہت کچھ سیکھا بھی۔
یہ صرف جرابوں کا مسئلہ نہیں تھا، بلکہ بچوں کے لیے ایک قیمتی سبق بھی۔ انہوں نے حساب کتاب، تنظیم، ایمانداری، اور دوسروں کا خیال رکھنے کا عملی مظاہرہ کیا۔ میں نے ان سے وعدہ کیا کہ خولہ کی سالگرہ کے دن ہم سینٹر جائیں گے، جہاں وہ اپنی مرضی سے دو دو سو کراؤن خرچ کر سکیں گے، اور ان کے پسندیدہ ریستوران سے کھانے کی دعوت بھی میری طرف سے ہوگی۔
جب رات کو سب بچے سو گئے اور گھر میں سکون چھا گیا، میں نے اپنے دن بھر کی محنت اور ان لمحات کے بارے میں سوچا۔ یہ محض جرابوں کا مسئلہ نہیں تھا؛ یہ ایک موقع تھا بچوں کے دلوں میں اہم اقدار پیدا کرنے کا۔ ان کا حساب کتاب کرنا، اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا، اور ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہوئے بھی ایمانداری سے کام لینا—یہ سب دیکھ کر مجھے خوشی ہوئی کہ وہ زندگی کے اہم سبق سیکھ رہے ہیں۔
میں نے خولہ کی ترتیب اور دانیال کی محنت کی تعریف کی، اور دل میں سوچا کہ یہ چھوٹے چھوٹے مواقع ہی ہیں جو بچوں کی شخصیت کو نکھارتے ہیں۔ انہیں نہ صرف اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہوا، بلکہ یہ بھی سیکھا کہ ایمانداری اور دوسروں کا خیال رکھنے سے کامیابی اور خوشی دونوں حاصل کی جا سکتی ہیں۔
اس دن نے مجھے یہ بھی یاد دلایا کہ بچوں کو سکھانے کا سب سے مؤثر طریقہ وہ ہے جہاں سیکھنے کا عمل مزے میں گزرے۔ وہ نہ صرف کام میں مشغول رہے بلکہ ان کے چہروں پر جو خوشی اور اطمینان تھا، وہ میری سب سے بڑی کامیابی تھی۔
میں نے سوچا، زندگی کی خوبصورتی انہی چھوٹے چھوٹے لمحوں میں چھپی ہوتی ہے، جب ہم اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزاریں، انہیں سمجھائیں اور ان کے ساتھ مل کر خود بھی سیکھیں۔ یہ بظاہر چھوٹا سا واقعہ میرے دل میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو گیا—ایک دن جب ہم نے جرابوں کے جوڑے بناتے بناتے زندگی اور رشتوں کو جوڑنے والے اصول بھی سیکھ لیے۔