ذہنی ورزش

ایک پروفیسر ٹرین میں سفر کر رہا تھا کہ ایک کسان ساتھ آ کر بیٹھ گیا۔ پروفیسر کو لگا کہ سفر لمبا ہے، کیوں نہ کچھ ذہنی ورزش کر لی جائے؟ اس نے کسان کی طرف دیکھا، جو بڑے مزے سے مونگ پھلی کھا رہا تھا، اور بولا:
پروفیسر (عینک ٹھیک کرتے ہوئے): “چلو ایک گیم کھیلتے ہیں! میں تم سے ایک سوال پوچھوں گا، اگر تم جواب نہ دے سکے تو مجھے 100 روپے دینا ہوں گے۔ پھر تم مجھ سے سوال پوچھو گے، اگر میں نہ بتا سکا تو میں تمہیں 500 روپے دوں گا۔”
کسان (سوچتے ہوئے): “یعنی یا تو 100 کا نقصان یا 500 کا فائدہ؟ یہ تو وہی بات ہوئی کہ بکری پالوں، دودھ ملے تو ٹھیک، نہ ملے تو گوشت کا فائدہ! ٹھیک ہے، چلو کھیلتے ہیں!”
پروفیسر (اکڑ کر): “زمین اور چاند کے درمیان فاصلہ کتنا ہے؟”
کسان نے ایک لمحے کا بھی ضائع کیے بغیر جیب سے 100 روپے نکالے اور پروفیسر کے ہاتھ پر رکھ دیے، جیسے کوئی عام سی بات ہو۔
پروفیسر (حیران ہو کر): “تم نے سوچا بھی نہیں؟”
کسان (مسکراتے ہوئے): “ارے بھائی، میرا دماغ حساب کتاب کے لیے نہیں، کھیت جوڑنے کے لیے بنا ہے!”
اب کسان کی باری تھی۔
کسان (شرارتی انداز میں): “ایسا کون سا جانور ہے جو پہاڑ چڑھتے وقت تین ٹانگوں والا ہوتا ہے اور نیچے آتے وقت چار ٹانگوں والا؟”
پروفیسر کا دماغ ایک دم بریک فیل ٹرک کی طرح الٹنے لگا۔ اس نے سوچا، شاید کوئی نایاب جانور ہوگا، مگر ایسا سننے میں کبھی نہیں آیا تھا۔ اس نے ذہن پر زور ڈالا، فلسفے میں گھس گیا، نوٹس کھنگالے، اور تو اور، بغل میں بیٹھے مسافر کی طرف بھی مدد کے لیے دیکھنے لگا۔ آخر کار، پورے پندرہ منٹ کی کشمکش کے بعد، اس نے مایوس ہو کر کسان کو 500 روپے دے دیے۔
کسان نے چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ سجائی، رقم لی، اور مزے سے سونے لگا۔
مگر پروفیسر کے لیے یہ ہار برداشت کرنا مشکل تھا! اس نے کسان کو ہلایا اور بولا: “یار، مجھے بھی تو بتاؤ کہ وہ جانور کون سا ہے؟”
کسان نے آنکھیں کھولیں، ایک لمبی جمائی لی، جیب سے 100 روپے نکالے، پروفیسر کو دیے، اور بغیر کچھ بولے پھر سو گیا!
پروفیسر کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا، اور باقی سفر وہ کھڑکی سے باہر دیکھ کر اپنی قسمت کو کوستا رہا!

ذہنی ورزش“ ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ لکھیں