محبت کا مفہوم

کہانی: مریم عباس

پوٹھوہار کی سرزمین، جہاں سرسوں کے کھیتوں میں زردی بکھری ہوتی ہے اور پہاڑی ٹیلوں کے درمیان سرخ مٹی کی خوشبو ہوا میں رچی بسی ہوتی ہے۔ شام کے وقت جب سورج ٹیلوں کے پیچھے اترتا ہے تو پورا منظر سنہری روشنی میں نہا جاتا ہے۔ اسی دلفریب منظر میں ایک چھوٹے سے گاؤں کی کہانی ہے، جہاں زری اور اذلان کی محبت پروان چڑھ رہی تھی۔

زری، وہ لڑکی جس کی ہنسی میں پوٹھوہار کے جھرنوں کی کھنک تھی اور آنکھوں میں ان کہی کہانیوں کے خواب۔ وہ اکثر گاؤں کے باہر موجود بیری کے درخت کے نیچے بیٹھ کر کتابیں پڑھا کرتی تھی اور کبھی کبھار دور سرسوں کے کھیتوں کو تکتے ہوئے خود سے سوال کرتی،
“کیا محبت واقعی ویسی ہوتی ہے جیسی کہانیوں میں بیان کی جاتی ہے؟”

اذلان، گاؤں کے مشہور زمیندار خاندان کا چشم و چراغ، وجیہہ اور سنجیدہ مزاج۔ اس کی شخصیت میں پوٹھوہار کے مردوں والی سادگی اور غیرت تھی۔ وہ کم گو تھا، مگر اس کی خاموشی میں ایک عجیب سی کشش تھی، جیسے پوٹھوہار کے اونچے ٹیلوں میں چھپی کہانیاں۔

زری کو اذلان کی یہی خاموشی اپنی طرف کھینچتی تھی۔ وہ اکثر سوچتی،
“کیا خاموشی بھی کبھی کچھ کہہ سکتی ہے؟”

ایک شام جب پوٹھوہار کی فضاؤں میں ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی اور دور کہیں کسی چرواہے کی بانسری کی دھن گونج رہی تھی، زری بیری کے درخت کے نیچے بیٹھی ستندر سرکار کا کوئی گیت گنگنا رہی تھی۔ اذلان دور کھڑا اسے دیکھ رہا تھا۔ زری کی مسکراہٹ اور گانے کی نرمی میں وہ کچھ کھو سا گیا تھا، مگر اچانک اس کی پیشانی پر ہلکی سی شکن آ گئی۔

زری نے سر اٹھا کر اسے دیکھا اور مسکرا دی۔

“کیا ہوا، ایسے کیوں دیکھ رہے ہو؟” زری نے ہنستے ہوئے پوچھا۔

اذلان نے ناک چڑھا کر، ہلکی سی سنجیدگی اور شرارت سے کہا:
“میں راجپوت وڈ دینا، کسی اور کو دیکھنے کی ضرورت نہیں۔”

زری کو اس کی جیلسی پر بےساختہ ہنسی آ گئی۔ وہ جانتی تھی کہ اس کے لہجے میں محبت کی وہ شدت ہے جسے لفظوں میں بیان کرنا مشکل تھا۔

“سنو اذلان،” زری نے ہنستے ہنستے کہا، “میری آنکھوں، میری سماعتوں، میری سانسوں پر صرف تمہارا حق ہے۔”

اذلان خاموشی سے آگے بڑھا۔ اس نے بایاں ہاتھ زری کی گردن کے پیچھے رکھا، نرمی سے اسے قریب کیا اور دائیں ہاتھ سے اس کے چہرے سے بال ہٹا کر ماتھے سے ماتھا جوڑ دیا۔

“ہمیشہ میری رہنا، جیسے میں تمہارا ہوں… اور سارے کا سارا ہوں۔”

زری کو لگا جیسے وقت رک گیا ہو۔ اردگرد کی فضا میں سرسوں کے کھیتوں کی خوشبو، دور اونچی مسجد کے مینار سے آتی اذان کی آواز اور پوٹھوہار کی ہواؤں کی سرسراہٹ بھی دم سادھ کر انہیں دیکھ رہی ہو۔

اذلان کی بانہوں میں اسے وہی احساس ملا جو سردیوں کی شام میں جلتی لکڑی کی آنچ جیسا سکون دیتا ہے۔ گرمائش، تحفظ اور سکون۔

وقت گزرتا رہا۔ محبت کی وہ سادہ سی جھلک جو زری نے اذلان کی جیلسی میں دیکھی تھی، وہی اس کے دل میں ہمیشہ کے لیے بس گئی۔

کئی برس بعد، جب زری اپنے جھروکے سے پوٹھوہار کے ٹیلوں کو دیکھتی اور سرسوں کے کھیتوں میں بکھری زردی کو محسوس کرتی، تو وہی سوال اس کے دل میں ابھرتا:
“کیا یہی محبت ہے؟ اتنی سادہ؟ اتنی پیاری؟”

پھر اذلان کی آواز اس کے دل میں گونجتی:
“ہمیشہ میری رہنا، جیسے میں تمہارا ہوں… اور سارے کا سارا ہوں۔”

زری مسکرا دیتی، کیونکہ اب اسے معلوم ہو چکا تھا کہ محبت کو بیان نہیں کیا جا سکتا، صرف محسوس کیا جا سکتا ہے—ایسی خاموشی میں، جو سب کچھ کہہ دیتی ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں