کلام: قِفل شاہ
میں خاموشی سے اگر آواز لگا دوں
بن جُنّبشِ گفتار یہاں حشر اٹھا دوں
یہ صبر مری نسل کا ورثہ ہے وگرنہ
تجھ جیسے وفادار سرِ دار چڑھا دوں
غازی تھے اُس وقت سرِ دشت بہتّر
مفرور پرندوں کے کہے نام بتا دوں
اِس گردشِ آلام میں سلگایا ہوا میں
عین ممکن ہے وقت کی رفتار بڑھا دوں
جو لوگ یہاں خود بنے پھرتے ہیں خالق
اُن جیسے خدا جتنے کہے اور بنا دوں
اے ربِ دو عالم مجھے جتنا ہو میسر
بس اتنا کہ توفیقِ ہدایت نہ گنوا دوں
میں خود کا ہوں کافر اور کافر ہوں جہاں کا
ہو سکتا ہے خاک و خوں کے دریا بہا دوں
نا زندگی کی چاہ ہے اور نا ہی غمِ موت
یہ سوچ کے بیٹھا ہوں کہ کب کتنا لٹا دوں
پہروں جس بت کے ہیں خد و خال تراشے
کہتا ہوں قفل اُس کو کہیں آگ لگا دوں
Recent Comments