پاکستان کی کہانی پاکستان کی زبانی

لیکن افسوس صد افسوس یہ صرف میری خوش فہمی اس وقت تک برقرار رہی جب تک قائد زندہ رہے وہ مجھے مضبوط و مستحکم کرنے پر کمربستہ رہے۔ یہ میری بد قسمتی کہ میرے محسن کی زندگی نے کچھ زیادہ وفا نہ کی اور مجھے تنہا چھوڑ گئے۔ بس پھر تو کیا بتائوں کہ مجھ پر کیا گیا گزری ،بجائے یہ کہ میری بنیادوںکو مضبوط سے مضبوط تر

ناروے مین الیکشن اور پاکستانی امیدوار

اس کی کئی وجوہات ہیں۔سب سے پہلی وجہ تو یہ ہے کہ بیشتر پاکستانی امیدواروں کا پاکستانی کمیونٹی سے رابطہ ہی کم ہے۔ہونا تو یہ چاہیے کہ پاکستانی ووٹرز کے ووٹ تو پاکستانی امیدواروں کو ہی دیے جانے چاہیں۔لیکن شائید انہیں ایک دوسرے پر اعتبار ہی نہیں۔کیونکہ ایک تو پہلے سے موجود پاکستانی سیاستدانوںکا پاکستانی مسائل پر سرد رویہ اور

عید کا پانچواں روز اور کتابوں کا اتوار بازار

مصنف کو اپنی اہلیہ سے ایسی محبت کہ کتاب میں جہاں ان کے پہلی بار یرقان میں مبتلا ہونے کا احوال شامل ہے وہاں ان سے فون پر ہونے والی آخری گفتگو بھی شامل کی گئی ہے، عالم بالا میں اپنی اہلیہ کی ممکنہ پذیرائی کا منظر بھی بیان کیا گیا ہے!

ناروے میں پاکستانی پس منظر رکھنے والی سیاستدان رائنا اسلم

۔انہوں نے دو سال تک ناروے کی روزگار مہیاء کرنے کی کمپنی میں کام کیا ۔غیر ملکیوں کو جاب دلوانے کے لیے وہ ایسے اداروں کا انتخاب کرتی تھیں جن میں غیر ملکی نہیں تھے۔وہ وہاں قابل غیر ملکیوں کو جاب دلواتی تھیں۔انکے اس پراجیکٹ کا مقصد یہ تھا کہ

یوم دفاع کا بدلتا تصور تحریر احسان شیخ

لوگوں نے دیکھا کہ پل کے نیچے کھڑے ایک بزرگ گرنے والے بموں کو پکڑ پکڑ کر ایک طرف رکھ رہے تھے۔جب کہ پل اسی شان سے اپنی جگہ پر کھڑا دشمنوں کا منہ چڑا رہا تھا۔دشمن نے پاکستان کی سرحدوں پر کئی محاذ کھولے لیکن اپنے ہر محاذ پر اسے منہ کی کھانی پڑی۔اور وہ بے بسی سے کھسیانی بلی کھمبا نو چے کے مصداق اپنی بہادری اور کامیابی

ناریل کے درختوں کے نیچے نئے سلسلے

راقم السطور اپنی منزل پر پہنچا تو پانچ بجے کا وقت تھا اور تقریبا تمام شرکاء تشریف لا چکے تھے ۔ کمرہ کتابوں سے گھرا ہوا، کمر ٹکانے کو بھی کتابیں، پیش منظر میں بھی کتابیں اور پس منظر میں بھی کتابیں ہی کتابیں۔ جامی صاحب سے عرض کیا کہ کاغذات کو سہارا دینے کے لیے کچھ عنایت کیجیے تو ایک غیرمعمولی حجم کی کتاب ہی پیش کی گئی۔