یہ مارچ ناروے کے شمالی شہر ٹرونڈھائم ( Trondheiem )تک کی جائیگی۔ وہ لوگ جو اس مارچ کے لیے فنڈز دینا چاہتے
اس کیٹا گری میں 6949 خبریں موجود ہیں
جبکہ آن لائن قارآن کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ اس میں مصر سے تعلیم یافتہ عالمہ عفت مقبول درس کی کالاسز لیتی ہیں۔ اکیڈمی نے حال میں اپنا قرآن کی تجوید کا ڈیڑھ سالہ کورس مکمل کیا ہے۔پراجیکٹ کی تکمیل کے
ایک اخلاقی معیار کو بلند کرنے کے لیے ادبی اور غیر ادبی دونوں عناصر کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔جہاں ایسا ممکن ہے وہاں وہاں یقینا§ ایسا ادب تخلیق ہو گا جو اخلاقی اقدار کے سامنے سرنگوں ہو گا۔
ماہ رمضان میں ہماء ہائس آف فیشن پر خریداری کرنے والوں کے لیے لکی ڈراء بھی ہے جو ہر خریدادر کو ملے گا۔اس لیے یہاں سے خریداری کرتے وقت اپنا لکی ڈراء کوپن لینا نہ بھولیں۔اس پر آپ کو ہزار کرائون سے لے کر ڈیڑھ ہزار کرائون کی مالیت کا گفٹ کارڈ مل سکتا ہے۔ اس پر آپ جب چاہیں خریداری کر سکتے ہیں۔اس کے علاوہ چاند را ت کے
دوسروں کو اپنے ذاتی لڑائی جھگڑوں میں ہر گز مڈاخلت کی اجازت نہ دیں۔میاں بیوی کے جھگڑے میں دخل دینے والے اکثر دوست احباب علیھدگی اور طلاق کا باعث بنتے ہیں۔بلکہ ایک ماہر کے مطابق دوسروں کو اپنے ذاتی جھگڑوں سے دور رہنے کی تلقین کرنی چاہیے۔ یہ بات آپ
لاس اینجلس میں ہی قیام کے دوران میں نے سنا تھا کہ میرے ایک دوست کی دوست ہسپانوی ہارلیم نزدکولمبیا میں اپنا پارٹمنٹ چھوڑ رہی ہے ۔ اور نیو یارک کی رئیل مارکیٹ کو مد نظر رکھتے ہوئے مجھے جلد از جلد وہاں پہنچ کر قبضہ کر لینا چاہیے۔باہمی اتفاق
کیا نارویجن بیرون ملک سیٹل نہیں ہوتے؟ کیا وہ کسی ملک کی اقلیت نہیں ہیں۔ نارویجن لوگ بھی روزگار اور شادیوں کے سلسلے میں دوسرے ممالک میں جاتے ہیں وہاں اقلیت بن کر رہتے ہیں ۔امریکہ اور کینیڈا برطانیہ میں انکی بھی کالونیاں ہیں۔ اگر انکے ساتھ بھی ایسا امتیازی اور متعصبانہ
آن لائن شاپنگ میں فراڈ کا بہت وسیع تصور ہے۔ جس میں hidden charges اور کریڈیٹ کارڈ کی ID کی چوری بھی شامل ہے یہاں پر جو بھی ٹپس دی جا رہی ہیں اس میں سب سے زیادہ موثر اور اہم احتیاطی تدابیر ہیں۔
معزز نین قارئین! ذرا غور کیجئے۔ یہ انتہائی افسوس ناک المیہ ہی تو ہے کہ جس دولت کے حصول کی تاکید اللہ اور اس کے رسولۖ نے کی۔ آج وطن عزیز میں تنزلی کا شکار ہے۔ کیونکہ ہم ایک طرف تو اللہ اور اسکے رسولۖ کے احکامات کی رو گردانی تو کر ہی رہے ہیںدوسری طرف یہ بھی بھول چکے ہیںکہ یہ علم ہی ہے جو جہالت کی ضد ہے،جو ہمیں اندھیرے سے روشنی کی طرف لے جاتاہے۔ جو ہمارے عقائد کو درست کرتاہے۔ نفس کو پا کیزہ بناتا ہے، جو فہم وادراک اور آگہی و عرفان بھی ہے، اخلاق سنوارتا ہے ،تنہائی کا ساتھی ہے۔ جنت کی طرف لے جاتاہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ صاحب علم ہونا مومنین کی صفات میں سے ہے۔ موجودہ تعلیمی پسماندگی کا ذمہ دار شخص واحد نہیں بلکہ اجتماعی و
محمد خالد اختر کے سفرناموں میں پڑھنے والوں کو مسحور کرنے والی بات ان انسانی کرداروں کی رنگا رنگی ہے جن سے ان کی سفر کے دوران ملاقات ہوتی ہے۔ اپنی اپنی مخصوص صورت حال سے دوچار انسانوں پر مشتمل زندگی کا میلہ ہی ہے جس سے محمد خالد اختر کا سفری تجربہ عبارت ہے۔ وہ اپنے ان عارضی ہمسفروں ،مختلف پس منظر رکھنے والے عام لوگوں سے بھرپور تخلیقی دلچسپی لیتے ہیں اور ہمدردی اور گہرائی سے بنائی گئی تصویروں کے ذریعے پڑھنے والے کو اپنے اس مطالعے میں شریک کرتے ہیں۔اس عمل میں محمد خالد اختر کی تخلیقی شخصیت کا فکشن نگار پہلو پوری طرح بروئے کار آتا ہے۔