خفیہ خوشیاں اور مٹھائیاں۔۔

کالم نگار شازیہ عندلیب

chasam falk.....

پہلے پہل جب یہ خبر سنی کہ ایک مولا جٹ برانڈ سیاستدان اور اسکا خاندان چھپ چھپ کر مٹھائیں اں کھاتے ہوئے پکڑا گیا تو سوچا کہ بس یونہی کسی دشمن کی اڑائی ہو گی۔جیسا کہ آکل ایک ٹرینڈ ہی چل پڑا ہے میڈیا میں ہر بات کو بڑھا چڑہا کر پیش کرنے کا تو اس لیے یہ خبر سن کر سارے ہنس دیے ہم چپ رہے۔مگر کچھ ہی دیر بعد ماتھا اس وقت ٹھنکا جب یہ پتہ چلا کہ یہ خبر نہ صرف سچ ہے بلکہ مصدقہ زرائع سے موصول ہوئی ہے۔اس وقت اپنے ایک عزیز کے بچپن کا واقعہ یاد آگیا جب وہ چھپ کر بالائی کھا رہے تھے کہ اچانک موقعہ پر خاتون خانہ کچن کی جانب اس اندیشہ سے بھاگیں کہ شائید بلی نے دودھ کی پتیلی پر حملہ کر دیا ہے۔مگر جب بلی کے بجائے ایک معصوم سا انسان کا بچہ پایا تو جان میں جان آئی کہ شکر ہے دودھ بلی سے تو بچ گیا۔مگر تین سالہ معصوم بچے کو وہاں پا کر پیار بھرے تجسس سے دریافت کیا گیا کہ کاکا تم یہاں کیا کررہے ہو تو اس معصوم نے بڑی ہشیاری سے شورمچا دیا کہ بھائی جان مائیاںیعنی کہ بالائیاں کھا گئے۔حالانکہ اس وقت بچے کے نو بیاہتا بھائی جان کچن سے دور اپنے حجرے میں اپنی نی نو بیاہتا دولہن سے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔مزے کی بات یہ تھی کہ بچے کے منہ پر لگی بالائی نہ صرف اسکا پول کھول رہی تھی ملکہ اسکے بھولپن میں بھی اضافہ کر رہی تھی۔خاتون خانہ نے البتہ بچے کی بات کی تصدیق کے لیے اپنے بچے کے بھائی جان کامنہ اور مونچھیں احتیاطاً چیک کر لیں۔تاہم اس کے چہرے سے تبت سنو کریم کی خوشبو تو آ رہی تھی مگر دودھ کی کریم یا بالائی کی خوشبو نہیں آ رہی تھی۔انکا خیال تھا کہ مبادا بالائی کی چوری شائید دونوں نے مل کر کی ہو۔لیکن شواہد سے یہ خدشہ غلط ثابت ہو چکا تھا۔اگر آج سے بیس تیس دہائیاں پیچھے چلے جائیں تو وسطی پنجاب کے گھرانوں میں دودھ والا گھر گھر دودھ پہنچا یا کرتا تھا۔اس دودھ کو ایک پتیلی میں ابالا جاتا تھا۔پھر اس پر بالائی کی ایک تہہ جم جا یا کرتی تھی۔اس بالائی کو بچے بڑے بہت شوق سے کھاتے تھے۔بڑے دودھ پتی والی چائے بنا کر اس پر بالائی ڈلواتے تھے ۔بلکہ معروف اور مزیدار گلابی کشمیری چائے پر تو خاص طور سے پستہ بادام کی ہوائیوں کے ساتھ بالائی کی ایک موٹی تہہ جما کر ہوٹلوں اورریستورانوں میں پیش کی جاتی تھی۔اس قسم کی کشمیری چائے کاروباری حلقوں اور تاجروں میں بہت مشہور ہوا کرتی تھی۔اسے عمومی زبان میں لنٹر والی چائے بھی کہاجاتا تھا۔جو عام طور سے تاجر حضرات اپنے خاص گاہکوں او ر مہمانوں کے لیے قریبی چائے کے کھوکھے سے آرڈر پہ منگوایا کرتے تھے اور مزے سے اسکی چسکیاں لیتے ۔بچے اکثر بریڈ پر مکھن کی جگہ استعمال کیا کرتے تھے۔اس لیے دودھ کی بالائی عموماً دوپہر تک پتیلی کی بالائی سطح سے غائب ہو جاتی تھی۔یہ بالائی خالص کم ہی ہوتی تھی۔عام طور سے گوالے دودھ میں ڈالڈا یا کوئی بی سستاسا گھی کا ڈبہ الٹ دیتے تھے اور ہم لوگ بڑے خوش ہو کر اسے کھاتے تھے۔یہ انکشاف بھی بہت بعد میں ہوا جب سر عام اوردودھ کا دودھ پانی کا پانی جیسے ٹی وی پروگرام عام ہوئے ۔ورنہ اس سے پہلے تو وسطی پنجاب کے ہر دوسرے گھر میں گھر کے بیشتر افراد بالائی کھانے کے شوقین تھے۔بڑے پہلے کھا جاتے تھے اس لیے چھوٹوں کی باری ہی نہیں آتی تھی۔چھوٹے یہ حرکتیں اپنے بڑوں سے ہی سیکھتے ہیں ۔ورنہ کوئی چھوٹا چھپ کر کھانے کا پروگرام قدرتی طور پر انسٹال کرا کے نہیں لاتا۔یہ انہیں انکے خاندان کے بڑے اور پھر معاشرے کے بڑے عہدے دار ہی سکھاتے ہیں جو کہ آہستہ آہستہ پہلے چھوٹے چوروں کو پھر بڑے چوروں کو جنم دیتا ہے۔اسطرح یہ چوری اور لوٹ مار عوامی مزاج بن جاتی ہے۔یہاں تک کہ خاندان،قومیں اور ملک مقروض ہو جاتے ہیں۔جب احتساب ہوتا ہے حساب ہوتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ ملک کا قرضہ تو اسی ارب ڈالر ہے مگر حکمرانوں کے خزانوں میں تین سو ارب ڈالرز تک کی رقوم کا ذخیرہ ہے۔پھر اس پر انکی دیدہ دلیری اور بجائے شرمندگی اور پشیمانی کے ڈھٹائی کے ساتھ اپنے موقف پر ڈٹے رہنا۔اس پر طرہ یہ کہ دینی ذہن یا تعلیم حاصل کرنے والے لوگوں کا ایسے لوگوں کا حمائیت کرنا۔حیرت ہے کہ اللہ کی راہ پہ چلنے والے لوگ بھی چوروں اور ڈاکوؤں کی حمائیت کرتے ہیں۔وہ اس وقت یہ بات بھول جاتے ہیں کہ برے شخص کی حمائیت کرنے والا بھی اسکا ساتھی ہی ہوتا ہے۔جیسا کہ یہ بات کئی قرآنی واقعات اور احادیث سے ثابت ہے۔اور ہر پاکستانی مگر مفاد پرستوں کی نہیں صرف حب الوطنوں کی یہ خواہش ہے چاہے وہ دنیا کے کسی بھی حصے میں ہوں کہ وطن عزیز کو اچھی صالح امین اور صادق قیادت نصیب ہو۔اگر گذشتہ قیادت امین اور صادق نہیں تھی تو اسکا مطلب یہ نہیں کہ ہم عدالتوں کو ہی طعنے دینے لگ جائیں۔یہ قلم خدا کی امانت ہے ۔جب بات ملکی مفاد کی ہو تو اس وقت ذاتی مفادات دوستیوں اور دشمنیوں کو پس پشت ڈال دینا چاہیے۔یہ نہیں کہ فلاں سیاستدان چاچا جی کا سنگی تھا یا ماما جی کا گوانڈی تھا تو اسکی حمائیت ضرور کرنی ہے۔اسلامی حوالوں کو اپنی مرضی کے مطلب اخذ کر کے۔یہ سراسر بد دیانتی ہے۔قلم کا حق ہے کہ اس سے سچ بات لکھی جائے کہ ایک دن اسکا بھی احتساب ہو گا۔
اب رہ گئی بات چھپ کر بالائی یا مٹھائی کھانے کی تو جب بڑے بڑی کرسی پہ بار بار بیٹھیں تو چھوٹوں کا بھی دل تو کرتا ہے نہ۔کام کریں چھوٹے اور نوٹ کمائیں بڑے،بڑھکیں ماریں چھوٹے اور موجیں اڑائیں بڑے تو کیا انکا دل نہیں مچلتا ہو گا۔جیسا کہ ایک معروف سیاستدان نے یہ نعرہ لگایا یا پھر یہ انکے دل کی آواز تھی کہ
جان دیو ساڈی واری آن دیو۔۔۔۔۔
اسی طرح جب بڑے بھا جی بار بارر بڑی کرسی پہ براجمان ہوں گے تو چھوٹے بھائی کے دل میں بھی جذبات تو مچلتے ہیں۔اس لیے چھپ چھپ کے مٹھائی کھانا کوئی اچنبھے والی بات نہیں ۔اس لیے کہ اب انہیں بھی امید ہوئی ہے کہ وہ بھی اس کرسی پہ بیٹھ سکتے ہیں چاہے چار دن کے لیے ہی سہی۔باقی رہ گئی ملکی ترقی اور بہتری کی بات تو جس ملک نے پچھلے ستر برسوں میں کچھ نہیں کیا وہ اب کیا کر لے گا۔ایک لٹیرا جائے گا تو دوسرا آ جائے گا۔لیکن اسکا مطلب یہ بھی نہیں کہ ہم لٹیروں اور چوروں کی حمائیت شروع کر دیں کہ ہمار ادل و جان تو اس ربّ ذولالجال کی امانت ہے۔ہمیں لوٹ کر تو اسی کے پاس جانا ہے تو پھر حق کا ساتھ کیوں نہ دیا جائے۔اور پھر یہ امید کا دیا تو ہر حب الوطن پاکستانی کے دل میں ہمیشہ جلتا ہی رہتا ہے اس دعا کے ساتھ کہ
خدا کرے میرے وطن پہ وہ فصل بہار آئے
جسے اندیشہء زوال نہ ہو

اپنا تبصرہ لکھیں