سردموسم میں برف پیتے ہو؟
ایم ودودساجد
اس مرتبہ بہت سے موضوعات پیش نظر ہیں۔لیکن ایک موضوع ایسا ہے کہ جس نے سب سے زیادہ تشویش میں مبتلاکررکھا ہے۔اس موضوع کے سبب علم بانٹنے والی ایک خلق خداپریشان ہے لیکن اس پر ابھی تک ارباب علم ودانش نے قلم نہیں اٹھایاہے۔ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگ یا کچھ گروپ کوئی حکمت عملی بنارہے ہوں لیکن ابھی تک کوئی موثراور متاثر کن آواز نہیں اٹھی ہے۔آئیے اصل موضوع پر بات شروع کرنے سے پہلے ایک خبر ملاحظہ کیجئے: ہندوستان کے دو پرائیویٹ (Flying Clubs)ہوائی کلبوں نے ایک بہت ہی چھوٹے اور سب سے زیادہ ہلکے وزن کے ماڈل کے پانچ انتہائی خوبصورت ہوائی جہازخریدے۔ملک میں چند سیٹوں کی گنجائش والے اپنی نوعیت کے یہ منفرد جہاز تھے اور صرف انہی دوکلبوں کے پاس تھے۔کلب کے مالکان نے حکومت کے متعلقہ محکموں سے ان کی برآمد کی اجازت بھی لے لی تھی۔جب یہ جہازاڑکر ہندوستان کی فضا میں آگئے اور انہوں نے ٹریننگ سیشن شروع کردیاتو وزارت ہوابازی کے متعلقہ محکمہ نے ان جہازوں کو ٹریننگ کیلئے انفٹ قرار دے کران کی منظوری کو منسوخ کردیا۔تفصیل میں لکھا گیا تھا کہ ان جہازوں سے صرف شوقیہ اڑان بھری جاسکتی ہیٹریننگ نہیں دی جاسکتی۔یہ بات کی ہے۔لیکن اب تازہ خبر یہ آئی ہے کہ ان جہازوں کو ٹریننگ کے استعمال کیلئے فٹقرار دیدیا گیا ہے۔ان دوکلبوں میں سے ایک کے مالک کانگریس کے ممبر پارلیمنٹ ستیش شرما ہیں۔ان کے کلب کے پاس ایسے تین جہاز ہیں۔دو جہاز کارورگروپ کے پاس ہیں۔ اس خبر میں ہماری دلچسپی بس یہیں تک تھی۔اب اصل موضوع پر بات کرتے ہیں۔منموہن کابینہ کے مرکزی وزیرکپل سبل نے بہ عجلت تمام RTEایکٹ اس وقت پاس کرالیاتھا جب فروغ انسانی وسائل کی وزارت ان کے پاس تھی۔ایک خوبصورت نعرہ یہ تھا کہ ہر بچہ کولازمی طورپربنیادی تعلیم کا حق دے دیا گیا ہے۔اس کیلئے آرٹیکل (اے )کے تحت آئین میں بھی ترمیم کی گئی۔اس ایکٹ میں کہا گیا کہ بنیادی تعلیم کا مفت حصول چھ سال سے سال تک کی عمر کے ہر بچہ کا لازمی حق ہے۔اس کی رہائش کے ایک کلومیٹر کے دائرہ کے اندر ہی اسکول فراہم کیا جائے گا۔اس ایکٹ میں کلاس روم کی وسعتکلاس میں بچوں کا تناسب اور بچوں کی سہولیات سے متعلق ہر نکتہ طے کیا گیا ہے۔یہ تمام انفرااسٹرکچر فراہم کرنے کی ذمہ داری حکومت پر عاید کی گئی ہے۔ایکٹ کے مطابق سرکاری اور غیر سرکاری تمام اسکولوں کو RTEایکٹ کے مطلوبہ معیار تک لانے کیلئے مارچ تک کا وقت دیا گیا تھا۔اس تاریخ کے گزرجانے کے بعد انفٹ اسکولوں کو لازمی طورپربند ہونا تھا۔اب یہ تاریخ گزر گئی ہے۔ ملک بھر میں ایسے لاکھوں اسکول ہیں جنہیں اس پراسرارقسم کے ایکٹ کی رو سے کالعدم ہوجانا ہے۔صرف دہلی میں ایسے ڈھائی ہزار اسکول ہیں جن میں چھ لاکھ سے زائد بچے زیر تعلیم ہیں۔یہ اسکول سرکاری اسکولوں اور ان پانچ ستارہ اسکولوں کے علاوہ ہیں جہاں لاکھوں کاڈونیشن اور ہزاروں کی فیس وصول کی جاتی ہے۔ان اسکولوں میں اپنے نونہالوں کوداخلہ دلوانے کیلئے اچھے اچھوں کو بھٹکتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔اب ہربچہ کو مفت لازمی تعلیم کیلئے لائے جانے والے اس ایکٹ کی مہربانی سے ایک طرف جہاں لاکھوں اسکول تباہیکے دہانے پر ہیں وہیں ان پانچ ستارہ اسکولوں کی بہار آگئی ہے۔امیر کبیر گھرانے اور بڑی کمپنیاں شاپنگ مال کی طرح اسکول کھول رہی ہیں۔ان کیلئے نہ جگہ کے حصول کا کوئی مسئلہ ہے اور نہ منظوری حاصل کرنے کی کوئی دشواری ہے۔منظم پلاننگ کے ساتھ اسکولوں کیلئے بڑی بڑی تعمیرات ہورہی ہیں۔دہلی میں ہی کئی بڑے اسکول بڑے صنعت کاروں کے ہیں جہاں بڑے پیمانے پر تعلیم کا کاروبار ہوتا ہے۔ایک اسکول ایسا ہے کہ جس میں وزیر تک اپنے بچوں کا داخلہ کرانے کیلئے موٹی رقمیں ادا کرتے ہیں۔ایک منظم تعلیم مافیا ہے جو اس مقدس فریضہ کو اپنے آ ہنی شکنجوں میں جکڑے ہوئے ہے۔ان کا ظاہر جتنا اجلا اور معطرہے ان کا باطن اتنا ہی سیاہ اور متعفن ہے۔غریب تو بہت دور ایک متوسط گھرانہ بھی ان اسکولوں کے اردگرد پھٹکنے کی ہمت نہیں کرسکتا۔تعلیم وتربیت کے ان غلیظ سوداگرو ں کے گریبان پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت خود حکومت کے اند ربھی نہیں ہے۔لیکن دوسری جانب ان لاکھوں بندگان خدا کوایک لاکھ روپیہ یکمشت اوردس ہزارروپیہ یومیہ جرمانے اور جیل کا خوف ستارہا ہے جواپنی بساط کے مطابق برسوں سے معاشرے کو علم کی روشنی بانٹ رہے ہیں۔ منظوری حاصل کرنے کیلئے اسکولوں پرجوناممکن العمل ہمالیائی شرائط عاید کردی گئی ہیں ان پر موجودہ جغرافیائی پیچیدگیوں میں عمل مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔گھنی آبادیوں کے درمیان قائم اسکول آخر کہاں سے کھیلنے کا میدان لائیں گے؟منظوری حاصل کرنے کیلئے کہاں سے وہ گز جگہ خریدیں گے؟ان پرائیویٹ اسکولوں سے کہا جاتا ہے کہ کلاس روم میں اتنی وسعت ہونی چاہئے کہ فی بچہ چار مربع فٹ جگہ میسر ہو۔لیکن خودسرکاری اسکولوں کا حال یہ ہے کہ ایک کلاس روم میں بچے تک ٹھونس دئے جاتے ہیں۔دہلی کے کئی سرکاری اسکولوں میں یہ نظارہ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ملک کے تمام بڑے شہروں اور خاص طورپردہلی میں اول توجگہ ہے ہی نہیں۔اطراف میں جوکالونیاں نوآباد ہیں اور جہاں زمین مل سکتی ہے وہاں اسکولوں کیلئے زمین خریدنا ناخنوں سے پہاڑ کھودنے کے مترادف ہے۔ڈیلر اور بلڈر مافیا پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔دہلی میں جامعہ نگر کے نام پر مسلمانوں نے ایک بستی بسا رکھی ہے۔اس کے بیشتر علاقوں کو حکومت نے ابھی تک منظوری نہیں دی ہے۔لہذا وہاں کوئی شہری سہولت حاصل نہیں ہے۔وہاں سرکاری طورپر نہ پینے کاپانی میسرہینہ سڑکیں ہیں اور نہ سیور کا انتظام ہے۔اس کے باوجود زمین کی قیمت آسمان سے باتیں کرتی ہے۔پانچ مربع کلومیٹر کے دائرہ میں آبادچھ لاکھ سے زائد افراد کیلئے صرف دوعددسرکاری اسکول ہیں۔ایسے میں حکومت دعوی کرتی ہے کہ اس نے ہر بچہ کو لازمی بنیادی تعلیم کا حق دیدیا ہے۔اس آبادی کے اطراف میں کئی بڑے پرائیویٹ اسکول قائم ہیں لیکن وہ اس آبادی کے کسی بچہ کو داخلہ نہیں دیتے۔حکومت کا محکمہ تعلیم ان اسکولوں سے کوئی باز پرس نہیں کرتا۔ایک کلومیٹر کے دائرہ میں تعلیم کی فراہمی کا سرکاری قانون مسلمان بچوں کیلئے کوئی معنی نہیں رکھتا۔نہ انہیں مروجہ بڑے اسکولوں میں داخلہ ملتاہے اورنہ ان کے اپنے تعلیمی اداروں کو منظوری ملتی ہے۔ایسے میں حکومت کیسے یہ دعوی کرسکتی ہے کہ اس نے ہر بچہ کے لازمی تعلیم کے حق کو یقینی بنادیا ہے؟اب اس روشنی میں ان جہازوں کی عدم منظوری اورپھر منظوری کے واقعات کا جائزہ لیجئے۔ٹریننگ کیلئے جو جہازمیں خطرات سے پر تھے اب میں وہ کیسے محفوظ ترین ہوگئے ہیں؟اگر صرف پانچ چھوٹے جہازوں کیلئے حکومت اپنی صوابدیدسے قانون پلٹ کرتربیت پانے والے افراد کی زندگی خطرے میں ڈال سکتی ہے تو لاکھوں کروڑوں بچوں کے مستقبل کو بچانے کیلئے اس انتہائی نامعقول قانون کو کیوں نہیں پلٹ سکتی جس نے پورے ملک میں ایک ہیجان برپا کردیا ہے؟شاید وہ اس لئے ایسا نہیں کرسکتی کہ تعلیم کاکاروبار کرنے والے دولتمند اور صنعتی گھرانوں سے آنے والا چندہ بندہوجائے گا۔مجھے اس موقعہ پر اپنے دورہ امریکہ کا ایک واقعہ یاد آتا ہے۔میں نے اپنے پروٹوکول افسر ڈیوس ابراہم سے پوچھا تھا کہ اتنے سخت برفانی موسم میں بھی تم پانی کے گلاس میں پانی سے زیادہ برف کے ٹکڑے کیوں ڈالتے ہو؟تو اس نے جواب دیا تھا کہ شاید اس عادت قبیحہ کے پیچھے برف بنانے والی کمپنیوں کی سازش کارفرما ہو۔–