صابررضارہبرمصباحی
برطانوی سیاح ایڈورڈ لئیر نے ۱۸۷۴ء میںکہا تھا کہ’دنیا کے باشندوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ایک وہ جنہوں نے تاج محل کا دیدار کیا اور دوسرے جو اس سے محروم رہے ‘۔محبت کی لازوال نشانی ،عجائبات عالم میں شمارہونے والاعالمی تہذیبی ورثہ ،شاعروں،مصوروںاورفنکاروںکے تخیلات وافکاراور وجدان کامرکز ،سیاحوں کومحوحیرت کرنےاورجلومیں ہزارداستان کوسمیٹنے والا مغل فن تعمیرات کا نمونہ تاج محل ایک بارپھر ہندوتوا ایجنڈہ کا شکارہوگیا ۔ اترپردیش کی یوگی حکومت نے اسے ہندوستانی تہذیب وثقافت کا حصہ ماننے سے انکارکردیا ہے۔ گذشتہ دنوں یوپی حکومت نےاپناسالانہ بجٹ پیش کیا ۔ اس میں ریاست کے مذہبی اور تقافتی مراکز اور شہروں کی ترقی اور فروغ کے لیے ’ہماری ثقافتی وراثت‘کے نام سے ایک علیحدہ فنڈ مختص کیا گیاہے ۔حیرت انگیز طورپر اس فہرست میںہندوستان کی عظیم ثقافتی اورسیاحتی وراثت تاج محل کو شامل نہیں کیا گیا۔اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کا کہناہے کہ مغل بادشاہ شاہجہاں کا تعمیرکردہ تاج محل ہندوستانی ثقافت کی نمائندگی نہیں کرتا ہے ۔ ’ہماری ثقافتی وراثت‘ کی فہرست میں ایودھیا، بنارس، متھرا اور چتر کوٹ جیسے ہندو مذہب کے اہم مراکز کوجگہ دی گئی ہے اوراس کےفروغ کے لیے ۲۰؍ ارب روپے سے زیادہ کی رقم منظور کی ہے۔یوگی حکومت نےتاج محل سمیت کئی ایسی عمارتوں اور مقبروں کو بھی ثقا فتی ورثے کے منصوبے سے الگ رکھاہے جن کی تعمیر مسلم سلاطین نےکرائی ہے یا پھروہ ہندتوا تہذیب کی نمائندگی نہیں کرتےہیں۔ سنجیدہ حلقوںمیںیوگی حکومت کے اس اقدام کو ہندوتوا کے ایجنڈے سے متاثر فیصلہ قرار دیتے ہوئے اس کی سخت مذمت کی جارہی ہے۔اس سے قبل بھی ہندتوادیوی دیوتائوںسے جوڑکربھگوادھاری تنظیموںنے تاج محل کے وجود پر سوال کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے مگرباضابطہ حکومتی سطح پر تاج محل کی نگہ داشت اورترقی کے لیے ایک پھوٹی کوڑی کابھی اہتمام نہ کرنا یوپی حکومت کے منشاکوواضح طورپر ظاہرکرتا ہے ۔ تاج محل کے دیدارکے لیے دنیا بھر سے ہرسال کم وبیش۳۰؍ لاکھ سیاح آتے ہیں جس سے حکومت کوکروڑوںکی آمدنی ہوتی ہے ۔ اس طرح حکومت کے ذریعہ تاج محل کونظرانداز کیے جانے سے نہ صرف سیاحت سے ہونے والی کروڑوںکی آمدنی میں کمی آئے گی بلکہ تاج محل کوبھی نقصان پہنچے گا ۔ شہری آلودگی کےسبب تاج محل کی خوبصورتی یونہی ماند پڑرہی ہے ۔اس کی سفیدی پرحرف آرہا ہے اور دھیرے دھیرے اس کا رنگ پیلا پڑتاجارہا ہے ۔ اس سلسلے میں مئی۲۰۰۷ء میں پارلیمنٹ میں ایک رپورٹ پیش گئی تھی جس میں بتایا تھا کہ آگرہ میں بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی سے تاج محل کے جگمگاتے سفید سنگ مر مر کو نقصان پہنچ رہاہے ۔ آلودگی کے سبب اس تاریخی یادگار کی حقیقی خوبصورتی متاثر ہو رہی ہے۔ رپورٹ میں تاج محل کی خوبصورتی بچانے اور سنگ مر مر کو اس کی اصل شکل میں برقرار رکھنے کے لیے اسے صاف کرنے کی سفارش کی گئی تھی ۔جولائی۲۰۰۷ء میں ہی تاج محل کو دنیا کے سات عجائب میں شامل کیاگیاتھا۔ تاج محل کو مغل بادشاہ شاہ جہاں نے اپنی بیوی ممتاز محل کی یاد میںبنوایاتھا جومغلیہ طرز تعمیر کا عمدہ نمونہ ہے۔ یہ ایرانی، ترک، ہندوستانی اور اسلامی فن تعمیرا ت کے اجزاء کا انوکھا ملاپ ہے۔۱۹۸۳ءمیں تاج محل کو اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم، سائنس اور کلچر (یونیسیف)نے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل کیا۔ اس کے ساتھ ہی اسے عالمی ثقافتی ورثہ کی جامع تعریف حاصل کرنے والی، بہترین تعمیرات میں سے ایک بتایا گیا۔ تاج محل کو ہندوستان کے اسلامی فن کا عملی اور نایاب نمونہ بھی کہا جاتاہے۔ تاج محل۱۶۳۲ء سے۱۶۵۰ءتک یعنی ۲۵؍برس میں مکمل ہوا۔ اس کی تعمیر میں ساڑھے چار کروڑ روپے صرف ہوئے اور بیس ہزار معماروں اور مزدوروں نے اس کی تعمیر میں حصہ لیا۔ پوری عمارت سنگ مرمر کی ہے۔ اس کی لمبائی اور چوڑائی۱۳۰؍ فٹ اور بلندی۲۰۰؍ فٹ ہے۔ عمارت کی مرمری دیواروں پر رنگ برنگے پتھروں سے نہایت خوبصورت نقاشی کی گئی ہے ۔مقبرے کے اندر اور باہر قرآن شریف کی آیات نقش ہیں۔ عمارت کے چاروں کونوں پر ایک ایک مینار ہے۔ اس کی پشت پر دریائے جمنا بہتا ہے اور سامنے کی طرف کرسی کے نیچے ایک حوض ہے۔ جس میں فوارے لگے ہوئے ہیں اور مغلیہ طرز کا خوبصورت باغ بھی ہے۔ اس مقبرے کے اندر ملکہ ممتاز محل اور شاہجہان کی قبریں ہیں۔
تاج محل کو ہندوستان کے ثقافتی ورثے میں شامل نہ کرنا ملک کی جمہوری روایات سے روگردانی ہے ۔دراصل یوگی آدتیہ ناتھ مغلیہ سلاطین سمیت تمام مسلم حکمرانوں کو ہندوستانی نہیں سمجھتے ۔آرایس ایس ، بجرنگ دل اورہندو یوا واہنی جیسی ہندوتوا تنظیموںکا خیال ہے کہ مسلم حکمراں ہندوستان کی مٹی میں رچنے بسنے کے باوجود یہاں کے باشندے نہیں تھے بلکہ انہوںنے باہر سے آکر ہندوستان پر قبضہ کیا تھا۔موہن بھاگوت اوریوگی آدتیہ ناتھ سمیت دیگر ہندتووا لیڈروںنے بی جے پی کےبر سراقتدارآنے کے بعدکئی باربرملا اظہارکیا تھاکہ بھارت کوآٹھ سوسالہ غلامی سے آزادی ملی ہے ۔ مسلم حکمرانوں سے انہیںاس قدرنفرت ہے کہ بی جے پی کی اکثریت والی نئی دہلی میونسپل کارپوریشن نے قومی راجدھانی میں اورنگ زیب روڈ کا نام تک تبدیل کردیا۔ہندوستان بھرمیں موجودمسلم حکمرانوں کی یادگاریں نشانے پر ہیں۔ تعلیمی نصاب میں تاریخ کو توڑموڑکرپیش کیا جارہاہے ،مسلم بادشاہوںکی انصاف پروری اورانسان دوستی پرفرقہ پرستی کا رنگ چڑھاکرہندوراجائوںکوہیروبناکرپی ش کیاجارہا ہے ۔ ہندوستانی ثقافتی تاریخ کے ساتھ اتنی بڑی زیادتی اورچھیڑچھاڑکے بعدبھی ملک کاسنجیدہ طبقہ نہ صرف خاموش ہے بلکہ وہ بے دست وپانظرآرہا ہے ۔حکومت کا یہ طرزعمل یقینا کسی ہٹلرشاہی کی آمدکی آہٹ ہے ۔ تاج محل کوہندوستانی وراثت کی فہرست میں جگہ نہ دینے اوراس کے لیے رقم مختص نہ کرنے کے فیصلے پر یوگی حکومت سے یہ مطالبہ کیا جاناچاہیےکہ وہ تاج محل کوخودمختار کردے تاکہ وہ اپنی آمدنی سے اپنا
حسن نکھار سکے۔ یقینا یوگی حکومت اس کے لیے ہرگزتیار نہ ہوگی ۔لیکن تاج محل کی آمدنی سے اپنے لیے عیش وعشرت کا سامان مہیاکرانا اورخود تاج محل کو نظرانداز دینے کے عمل کوکیا کہا جائے گا ، اس کا اندازہ آسانی سے لگایا جاسکتا ہے۔