کہانی: ڈاکٹر شہلا گوندل
سردیوں کی ایک رات تھی، اور میں باورچی خانے میں ایک ٹویٹر سپیس سن رہی تھی جب نیہا نے لونگ روم سے جھنجھلا کر آواز دی، “اماں ! یہ سوال میرا دماغ کھا گیا ہے!”
میں نے کمرے میں جھانکا تو وہ کتابوں کے ڈھیر کے بیچ بیٹھی تھی، پیشانی پر فکر کی لکیریں تھیں، اور سامنے تین پیچیدہ simultaneous equations کا سوال رکھا تھا۔
بزنس کا آخری سال اور امتحانات کا دباؤ اس پر حاوی ہو رہا تھا۔
“یہ سوال کیوں میرا پیچھا نہیں چھوڑ رہا؟” اس نے مایوسی سے کہا اور میری طرف مدد طلب نظروں سے دیکھا۔
میں مسکرائی اور آرام سے بولی، “بیٹا، یہ تو بہت آسان ہے۔ کرامر کے قانون سے حل ہو جائے گا۔”
“کرامر کا قانون؟” وہ حیرت سے بولی۔
میں نے اس کے قریب کرسی کھینچی اور کہا، “ہاں، کرامر کا قانون۔ آؤ، میں تمہیں سمجھاتی ہوں۔”
میں نے اس کے سامنے کاپی اور قلم رکھا اور گویا ہوئی، “دیکھو، کرامر کے قانون کے مطابق، ہم تین مساوات کو تین ڈیٹرمننٹس کے ذریعے حل کرتے ہیں۔ سب سے پہلے، ہم equations کے کوفیشینٹس کو قالبںوں (matrices ) میں ڈھالتے ہیں اور پھر ان سے ایک ڈیٹرمننٹ  بناتے ہیں۔ پھر، ہم ہر متغیر (variable) کے لیے علیحدہ ڈیٹرمننٹ   بناتے ہیں، جہاں ہر ایک ڈیٹرمننٹ میں ایک کالم کو constants سے بدل دیا جاتا ہے۔ آخر میں، ہم متغیرات (variables)یوں نکالتے ہیں:
میں نے ایک ایک step نیہا کے ساتھ کیا، اور جیسے ہی ہم نے سوال کا حل نکالا، اس کے چہرے پر حیرت اور خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
“امی، آپ نے یہ اتنی آسانی سے کر دیا!”
میں مسکرائی اور بولی، “یہ صرف ریاضی ہے، بیٹا۔ لیکن تمہیں ایک کہانی سناؤں؟ میرے لیے کرامر کا قانون ہمیشہ خاص رہا ہے۔”
نیہا نے سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا۔ میں نے چائے کا ایک گھونٹ لیا اور ماضی کی یادوں میں کھو گئی۔
“یہ وہی قانون ہے جس نے مجھے تمہارے والد، راحیل، سے قریب کیا تھا۔”
“یونیورسٹی کے دنوں کی بات ہے۔ میں Material Balance میں ہمیشہ اچھی تھی، لیکن ایک دن ایسا آیا جب میرے سامنے تین مساوات کا ایک مشکل سوال رکھا گیا، اور میں اسے حل کرنے کی کوشش میں ناکام ہو رہی تھی۔”
“راحیل، جو ہمیشہ کلاس کے سب سے خاموش مگر ذہین طالبعلم تھے، میری پریشانی دیکھ کر میرے قریب آئے۔ انہوں نے ہچکچاتے ہوئے کہا، ‘کیا میں مدد کروں؟’ اور میں نے جھجکتے ہوئے سر ہلا دیا۔” راحیل نے مجھے بتایا کہ جب اس طرح تین مساواتیں اکٹھے حل کرنی ہوں تو پھر Crammers Rule استعمال کر لیتے ہیں۔
“راحیل نے نہ صرف وہ سوال حل کیا، بلکہ ایک ایک step مجھے سمجھایا۔ ان کی باتوں میں ایسا سکون تھا جیسے وہ نہ صرف مساوات بلکہ میری بے چینی کو بھی سلجھا رہے ہوں۔”
“وہ لمحہ میری زندگی کا ایک موڑ تھا۔ مجھے لگا، جیسے ان تین مساوات کے پیچھے ہماری زندگی کا پہلا simultaneous equations مسئلہ حل ہو گیا ہو۔ وقت کے ساتھ، ہماری کہانی نے اعتماد، محبت، اور ساتھ جیسی مساوا ت تخلیق کیں اور آج ان مساوات کا سب سے خوبصورت حل تم ہو، نیہا۔”
نیہا کی آنکھوں میں حیرت اور مسکراہٹ ایک ساتھ تھی۔ “امی، یہ سب واقعی کرامر کے قانون سے شروع ہوا؟”
میں نے ہنس کر جواب دیا، “ہاں، بیٹا۔ زندگی کے بہت سے مسئلے ایسے ہوتے ہیں جنہیں ہم ریاضی کی طرح حل کر سکتے ہیں—صبر، سمجھ بوجھ، اور صحیح طریقے سے۔”
اگلے دن، نیہا نے نہ صرف اپنا سوال حل کیا بلکہ استاد کے سامنے اعتماد کے ساتھ کرامر کے قانون کی وضاحت کی۔ اس کی آنکھوں میں چمک تھی، اور دل میں میرے اور راحیل کے قصے کی ایک نئی یادگار۔
زندگی کی مساواتیں!
زندگی میں ہر مسئلے کا ایک حل ہوتا ہے، جیسے قالب (matrix ) کا ڈیٹرمننٹ ہوتا ہے۔ میں نے اپنی بیٹی کو سکھایا کہ ریاضی کے ساتھ ساتھ جذبات کے مسائل بھی اسی اصول پر حل کیے جا سکتے ہیں۔
اعتبار، ایثار اور پیار—یہی وہ تین مساواتیں ہیں جو ہمارے تعلقات کو دوام بخشتی ہیں۔ نیہا کے سوال کے ساتھ ساتھ، میں نے اپنی زندگی کی کہانی کا ایک بہت خوبصورت قصہ بھی اسے سنا دیا، اور حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ میری بیٹی ریاضی کے مشکل سوالات کے ساتھ زندگی کا پرچہ حل کرنے کا ہنر بھی سیکھ رہی تھی!