Copy
اینکر:
منور حسن صاحب
آپ اپنے اثاثہ declare کریں
منور حسن :
اثاثے declare کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اثاثے ہونے بھی چاہیے میرے پاس میری بیوی کے نام ایک سو گز(تین مرلہ) مکان کے علاوہ Asset نام کی کوئی چیز نہیں. یہ مکان بھی میری بیوی کو وراثت میں ملا، میں ساری حلال کی کمائی سے گھر تو دور کی بات ہے گاڑی بھی نہیں خرید سکا، جب جماعت اسلامی کی طرف سے کوئی زمہ داری ہوتی ہے تو جماعت اسلامی کی گاڑی استعمال کرتا ہوں ورنہ ساری زندگی پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کی ہے. اس کے علاوہ مجھ پہ کچھ قرض ضرور ہے جو اندازاً سترہ ہزار روپے ہے. بس مجھے اس کی ادائیگی کی پریشانی رہتی ہے.
یہ اس شحص کے کا حال ہے جو الیکشن 1977 میں پورے پاکستان میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کر کہ خود ممبر قومی اسمبلی بھی رہا اور پانچ سال تک انکی زوجہ محترمہ ممبر قومی اسمبلی رہیں. بیس سال جماعت اسلامی کا سیکرٹری جنرل اور پانچ امیر جماعت اسلامی رہا. مگر انکے پاس اپنی بیوی کی وراثت میں ملا سو گز کا مکان سو گز ہی رہا اور آج اسی گھر سے انکا جنازہ اٹھایا گیا….
بیٹے کی شادی کی تو وہ اس وقت امیر جماعت اسلامی پاکستان تھے مگر ولیمے میں سموسے پکوڑے اور چائے پیش کی حالانکہ اس وقت وزیر اعظم وزراء وزراء اعلیٰ گورنر اور میں خود بھی شریک ہوا، ہم سب نے پوچھا تو کہنے لگے بس اتنی ہی استطاعت رکھتے ہیں. مجھے وہ وقت بھی یاد ہے جب بیٹی کی شادی میں بے شمار تحفے ملے تو سب اٹھا کر جماعت اسلامی کے بیت المال میں جمع کروا دئیے کہ یہ میری بیٹی کو امیر جماعت اسلامی کی وجہ سے ملے ہیں اور ان پر حق جماعت اسلامی کا بنتا ہے.
جو لوگ آخرت کی جوابدہی پر ایمان کامل رکھتے ہیں وہ کبھی بھی دنیاوی لذات نفس کے پھیچے نہیں پڑتے. منور حسن صاحب جس زہد و تقوی کی معراج پر تھے آج ہر شخص انکی مثال دے رہا ہے کہ اس شخص کو نماز پڑھتے دیکھ کر اللہ یاد آتا تھا. جب بھی نماز سے اٹھتے چہرہ آنسو سے تر ہوتا، کبھی تہجد کو سفر میں بھی نہ چھوڑتے. تین چار کپڑے کے سفید سوٹ اور ویسٹ کوٹ اور انکی بھی حالت کہ دھلوا دھلوا کر رنگت تک اتر گئی ہوتی. ہم پاکستانی نہ جانے کب اپنے پاس رہتے ہوئے ان نگینوں کو سمجھ سکیں گے
مجیب الرحمٰن شامی کے کالم سے اقتباس