مبشر لقمان کو تھپڑ کیوں مارا یہ سوال نجی ٹی وی کے سنئیر اینکر نصر اللہ ملک نے وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری سے پوچھا تو انہوں نے اس کی وضاحت جس انداز میں کی اس پر پہلی مرتبہ فواد چوہدری پر پیار آیا فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ مبشر لقمان
نے ایک یوٹیوب چینل بنا رکھا ہے جس پر مبشر لقمان نے میرے حوالے سے یہ کہا کہ ٹک ٹاک گرلز حریم شاہ اور صندل خٹک کے پاس میری ایسی کوئی متنازعہ ویڈیو موجود ہیں جن پر وفاقی وزیر فواد چوہدری کو بعض معاملات میں ” کمپرومائز ” ہونا پڑ رہا ہے فواد چوہدری نے مزید اس کے دوسرے رخ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم بھی ماؤں بہنوں والے ہیں ہمیں ان کو جواب دینا ہوتا ہے بیوی کو جواب دینا پڑتا ہے فیملی ممبرز کے سامنے جوابدہی ہو جاتی ہے اس لئے ایسے گھٹیا الزامات لگانے والوں کا بھی محاسبہ ہونا چاہئیے .
فواد چوہدری نے بتایا کہ انہوں نے شادی کی تقریب میں مبشر لقمان سے پوچھا کہ وہ ” متنازعہ ویڈیو ” کہاں ہیں تو انہوں نے کہا کہ وہ ویڈیو متعلقہ لڑکیوں کے پاس ہی ہونگی میرے پاس تو نہیں ہیں تو اس وجہ سے میں نے مبشر لقمان کو تھپڑ مارا ہے اینکر نصر اللہ ملک نے کہا کہ آپ قانونی راستہ اختیار کرتے تو فواد چوہدری نے ایک اور ٹی وہ چینل کے اینکر سمیع ابراہیم کو مارے جانے والے تھپڑ کے حوالے سے عدالت میں چلنے والے کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سمیع ابراہیم کے خلاف میں ہتک عزت کا کیس کر چکا ہوں جس میں انہوں نے میرے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈا کیا اور مجھ پر الزام تراشی کی مگر گزشتہ پانچ ماہ سے وہ عدالت میں نا تو پیش ہو رہے ہیں اور ناہی کوئی میرے خلاف ثبوت دے رہے ہیں۔
یہاں پر فواد چوہدری کی گفتگو سنتے ہوئے مجھے خیال آ رہا تھا کہ ہمارے عدالتی نظام سے ایک حاضر سروس وفاقی وزیر بے بس نظر آتا ہے تو پھر باقی عوام کا تو اللہ ہی حافظ ہے روزانہ ملک بھر کی کچہریوں میں انصاف کا بول بالا ہونے کی بجائے انصاف بکتا بھی ہے اور انصاف کی دھجیاں بھی اڑائی جاتی ہیں ہمارے عدالتی نظام کو کم از کم اتنا تو درست اور تیز تر انصاف فراہم کرنے والہ بنا دیا جاے کہ عام آدمی کو چھوڑیں ایک وفاقی وزیر کو تو فوری انصاف ملنا چاہئیے .
یہ تو واقعی بہت بڑی زیادتی ہے کہ وزیر اپنی وزارت دیکھے یا اب کئی کئی ماہ عدالتوں کے چکر لگاتا رہے اور انصاف کا متلاشی رہے فواد چوہدری نے ایک اور بات بڑے ہی خوبصورت انداز میں کہی جو صرف فواد چوہدری ہی کرسکتے تھے انہوں نے کہا کہ “ججز” کہتے ہیں ہمارے خلاف کچھ مت کہو ورنہ ہم توہین عدالت سمجھیں گے ” فوج ” اپنے خلاف بات نہیں کرنے دیتی اور میڈیا کہتا ہے ہمارا احتساب کوئی نہیں کر سکتا ہم اپنا احتساب خود کریں گے باقی بچتے ہیں ” سیاستدان ” ان کو آپ دن رات بجائیں اور ان کے خلاف منفی تاثر دیتے رہیں اس پر فواد چوہدری کو داد دئیے بغیر کم از کم میں تو نہیں رہ سکتا
دیر آئد درست آید والی بات ہے کہ فواد چوہدری کو اتنا تو احساس ہے کہ پاکستان میں باقی ادارے نا تو اپنے خلاف بات سنتے ہیں اور نا ہی کسی کو خلاف بات کرنے کا حق دیتے ہیں اس کی تازہ مثال گزشتہ دنوں پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کے بعد آنے والے ردعمل کو دیکھ کر بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اپوزیشن لیڈروں کے خلاف فیصلے آنے پر ان کے ورکرز کی جانب سے ردعمل کو ٹی وی چینلز پر چلنے سے روک دیا گیا حتکہ ٹی وی چینلز پر نشر ہونے والے انٹرويوز کو ” پہلے وقفے ” تک ہی روک دیا گیا مگر پرویز مشرف کے خلاف آنے والے فیصلے کے بعد پرویز مشرف کے حق میں نکلنے والی ریلیوں کو دیکھاتا رہا بلکے ہسپتال کے بستر پر لیٹے ( اللہ ان کو صحت عطا فرمائے آمین ) پرویز مشرف کا انٹرویو بھی نشر کیا گیا .
سوال یہ ہے کہ یہاں بھی دوہرا معیار اپنایا گیا کہ اپوزیشن رہنماؤں کے انٹرویوز محض اس لئے روک دئیے گئے کہ وہ عدالتوں سے سزا یافتہ ہیں یا ان کے کیس عدالتوں میں چل رہے ہیں پھر ملک کی ایک خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو بھی سزا سنائی تھی پھر ان کو یہ سہولت کیوں دی گئی اداروں کی تباہی کا رونا دھونا بہت ہوچکا ہے اب اداروں کو مضبوط اور فعال بنانے کی ضرورت ہے ان کو عوامی فلاح کے قابل بنانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ایک وفاقی وزیر سے لیکر ایک عام آدمی احسن انداز سے مستفید ہوسکے
فواد چودھری کو دوسرا تھپڑ مارنے کی یوں تو ذمے داریاں اس عدالت کو دینی چاہئیے تو وزیر بے چارے کے کیس کو اتنا لمبا کھینچ کر لے گئی ہےکہ وزیر صاحب بددل ہوکر دوسرا تھپڑ رسید کر چکے ہیں مگر فواد چوہدری کی تھپڑ والی حرکت کو کسی صورت اچھا عمل قرار نہیں دیا جاسکتا ہاں اتنا ضرور کہوں گا کہ کچھ میڈیا تنظیموں نے فواد چوہدری کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے مگر انہی صحافتی تنظیموں سے میرا بھی ایک مطالبہ ہے کہ خدارا آپ بھی مبشر لقمان جیسی ہستیوں سے پیچھا چھڑا لیں جو لبادہ تو ” کھرا سچ ” کا لپٹے ہوئے ہیں مگر دوکان ” جھوٹ کی چلاتے ہیں.
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔