مختلف سرکاری اور غیر سرکاری ذرائع دعویٰ کر رہے ہیں کہ پرویز مشرف نے 1979 میں خانۂ کعبہ کو جعلی مہدی کے قبضے سے آزاد کروایا تھا۔ اس میں کتنی حقیقت ہے؟
ظفر سید
جب سے عدالت نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کو موت کی سزا سنائی ہے، ملک بھر میں خبریں اڑ رہی ہیں کہ انہوں نے تو خانۂ کعبہ کو جعلی مہدی کے قبضے سے آزاد کروایا تھا، وہ کیسے غدار ہو سکتے ہیں؟
اداکارہ وینا ملک نے ٹویٹ کی کہ پرویز مشرف وہ ہےجس نے خانہ کعبہ پر اسلام دشمنوں کا حملہ ناکام بنایا واحد فوجی ہے جس نے خانہ کعبہ کی چھت پر کھڑے ہوکر آزان دی بھلا وہ شخص اسلامی جمہوریہ پاکستان سےغداری کیسے کرسکتا ہے؟
اس کے علاوہ بعض وفاقی وزرا بھی پرویز مشرف کی بےگناہی ثابت کرنے کے لیے اسی قسم کے بیانات دے رہے ہیں۔
ریکارڈ کی درستگی کے لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ بتایا جائے کہ آج سے 40 سال قبل خانۂ کعبہ میں ہوا کیا تھا اور اس میں پرویز مشرف نے کیا کردار ادا کیا تھا۔
اس واقعے کی تفصیلی خبر یہاں دیکھی جا سکتی ہے:
20 نومبر 1979 کی صبح نمازِ فجر کے بعد جہیمان العتیبی نامی ایک سعودی سابق فوجی نے اپنے 400 ساتھیوں کے ہمراہ خانۂ کعبہ پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کر لیا اور وہاں موجود ہزاروں نمازیوں کو یرغمال بنا لیا۔ جہیمان کا دعویٰ تھا کہ اس کے ایک ساتھی محمد القحطانی مہدی ہیں اور تمام عالمِ اسلام پر فرض ہو گیا ہے کہ وہ ان کے ہاتھ پر بیعت کر لیں۔
سعودی حکومت نے ان دہشت گردوں سے خانۂ کعبہ کو چھڑانے کے لیے متعدد کوششیں کیں، پولیس بھیجی، فوجی دستے بھیجے، کمانڈو ایکشن کرنے کی کوشش کی، لیکن جہیمان نے مسجد الحرام کے میناروں پر مشین گنیں نصب کر رکھی تھیں، اس لیے جو بھی قریب آتا تھا، اسے گولیوں سے بھون دیا جاتا تھا۔
آخر سعودی حکومت نے فرانس سے رابطہ کیا اور وہاں سے تین خصوصی کمانڈو سعودی عرب پہنچ گئے۔ انہوں نے پہلے خانۂ کعبہ کی دیواروں میں بارود سے سوراخ کیے، پھر بےہوشی کی گیس چھوڑی اور اسی دوران ہلہ بول کر دہشت گردوں کو قابو کر لیا۔
اس واقعے کے کچھ ہی عرصے کے بعد اس قسم کی اطلاعات گردش میں آ گئیں کہ پاکستانی کمانڈوز نے آپریشن میں حصہ لیا تھا۔ جب جنرل مشرف اقتدار میں آئے تو یہ بھی کہا جانے لگا کہ ان کمانڈوز میں وہ بھی شامل تھے۔
2016 میں ایک نجی چینل کے اینکر جاوید چودھری کے پروگرام میں پاکستانی سیاست دان احمد رضا قصوری نے بھی اسی قسم کا دعویٰ کیا کہ ’میجر پرویز مشرف نے کعبہ سے دہشت گردوں کو فلش آؤٹ کیا۔‘ لیکن اس دعوے کی تردید میں دیر نہیں لگی۔ چند منٹوں کے اندر اندر اسی پروگرام کے دوران بریگیڈیئر جاوید حسین نے فون کر کے کہا کہ یہ بات بالکل غلط ہے اور پاکستانی کمانڈوز اس کارروائی میں شامل نہیں تھے۔
اور ویسے بھی اگر پرویز مشرف نے اس کارروائی میں حصہ لیا ہوتا تو وہ اس کا ذکر اپنی آپ بیتی ’ان دا لائن آف فائر‘ میں ضرور کرتے۔ اس کتاب میں انہوں نے 1979 کے متفرق واقعات تو لکھے ہیں لیکن مکہ میں ہونے والے کسی آپریشن کا ذکر نہیں کیا۔ بلکہ کتاب کے صفحہ نمبر 65 پر لکھتے ہیں کہ 1978 میں وہ لیفٹیننٹ کرنل بن گئے تھے (’میجر‘ مشرف والی تھیوری تو یہیں غلط ثابت ہو گئی)۔ اسی صفحے پر آگے چل کر وہ فرماتے ہیں کہ 1979 میں ان کی پوسٹنگ کمانڈ اینڈ سٹاف کالج میں بطور انسٹرکٹر ہو گئی تھی۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت حال میں ان کی بطور ’میجر کمانڈو‘ مکہ میں تعیناتی خارج از بحث ہو جاتی ہے۔
وہ 1979 کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے یہ تک بتاتے ہیں کہ انہوں نے سٹاف کالج میں بغیر پرچی کے تقریر کرنے کا ہنر کیسے سیکھا اور کیسے 15 مختلف ملکوں سے آئے ہوئے فوجیوں کے ساتھ بڑا یادگار وقت گزارا۔ اگر کوئی ذکر نہیں تو خانۂ کعبہ پر حملے اور اسے جعلی مہدی کے حامیوں سے چھڑوانے کے کارنامے کا۔
اور ویسے بھی آپ اور ہم جس پرویز مشرف کو ہم جانتے ہیں، وہ اپنے سید ہونے پر ناز کرتے ہیں اور بصد فخر کہتے ہیں کہ میرے لیے خانۂ کعبہ کا دروازہ کھولا گیا تھا۔ خیال ہے کہ اگر انہوں نے خانۂ کعبہ کو چھڑوانے میں کوئی کردار ادا کیا ہوتا تو اس کا کہیں نہ کہیں ذکر ضرور کرتے۔