ہم جنس پرستی
تحریر طلحہ
فروری کے دو مقدمے
/فروری کو جب سپریم کورٹ کی ایک بینچ نے بابا رام دیو بنام دہلی پولس کے مقدمے کی شنوائی کر رہی تھی، دوسری بینچ کے سامنے اس سے بھی اہم مقدمہ زیر سماعت تھا۔ اور جب اول الذکر مقدمے میں عدالت عظمی نے تشدد کے لئے رام دیو اور پولس دونوں کو ذمے دار قرار دیا او رٹی وی چینلوں نے آسمان سر پراٹھا لیاتو دوسرے مقدمے کی کارروائی کی خبریں اس میں دب کر رہ گئیں۔وہ دوسرا مقدمہ ہم جنس پرستی سے متعلق تھا۔ جولائی میں دہلی ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں ہم جنس پرستی کو درست، قانونی اور فطری عمل قرار دیا تھا جس پر آوارہ مزاج افراد نے خوشیاں منائی تھیں جبکہ بعض گروپوں نے احتجاج کیا تھا اور عدالت عظمی کے دروازے پر دستک دی تھی۔ سماعت کئی دن سے جاری ہے اور / فروری تک کی سماعت سے ججوں کا رخ بھی سامنے آگیا ہے۔ وہ بھی اس عمل کو غلط نہیں سمجھتے لیکن مرکزی حکومت اِس معاملے میں بدحواس ہے۔ / کی سماعت میں وزارت داخلہ کے وکیل پی پی ملہوترہ فاضل ججوں کو جب یہ بتا رہے تھے کہ یہ عمل دوسرے غیر فطری جنسی اعمال کی طرح ہی غیر فطری، غیر اخلاقی او رغیر قانونی ہے، اسی وقت وزارت داخلہ یہ پریس ریلیز تیار کر رہی تھی کہ اس معاملے میں حکومت کا اپنا کوئی موقف نہیں ہے یعنی غیر جانبدار ہے۔
حکومت کی بدحواسی کاسبب
میڈیا کے لئے یہ بہت بڑی خبر ہوسکتی تھی مگر نہیں ہوئی۔ حکومت کی بدحواسی کی وجہ یہ تھی کہ ستمبر ء میں ہم جنس پرستی ہی کے ایک معاملے میں مرکزی حکومت نے باقاعدہ حلف نامہ داخل کرکے دہلی ہائی کورٹ کو بتایا تھا کہ یہ عمل قطعا غیر فطری ہے اور دیگر جنسی جرائم کی طرح ایک جرم ہے اور / فروری کو سرکاری وکیل ملہوترہ سرکار کا یہی موقف ججوں کے سامنے پیش کر رہے تھے؛ لیکن تعجب ہے کہ اتنے بڑے وکیل ہونے کے باوجود وہ اِس امر سے بے خبر تھے کہ اب حکومت کی اخلاقی اقدار بدل گئی ہیں، یعنی مغربی تہذیب کی تابع ہوگئی ہیں؛ اس لئے کہ وہ اِس ملک کو ورلڈ پاور بنانا چاہتی ہے اور ورلڈ پاور بننے کے لئے ضروری ہے کہ مغرب کی اخلاق باختہ اقدار کی نقالی کی جائے ۔ گلوبلائزیشن کا تقاضا بھی یہی ہے۔ گلوبلائزیشن کا عمل جس طرح معیشت کے معاملے میں چاہتا ہے کہ پیسہ ہر طریقے سے، کمایا جائے، سرکاریں اپنی ضروریات ام الخبائث کی دوکانیں بڑے پیمانے پر کھول کر پوری کریں، اسی طرح اس کا مطالبہ کلچر کے بارے میں یہ ہے کہ اپنی روایتی اقدار سے دستبردار ہوکر مغرب کی ہر قدر اختیار کرلی جائے ۔ اور حکومت یہی کر رہی ہے اس لئے کہ اس نے انڈیا کو ہر قیمت پر عالمی قوت بنانے کا تہیہ کر رکھا ہے۔
اور اب ذرا دل تھام کر
لیکن ایک حکومت ہی کیوں؟مغربی کلچر کی یلغار سے عدالتوں کے جج بھی متاثر ہیں۔ بے لگام جنسی عمل پر کئی فیصلے سنائے جاچکے ہیں۔ بغیر شادی بیاہ کے ساتھ رہنے کو قانونی جواز عطا کردیاگیا ہے۔ جنسی عمل اگر باہمی رضامندی سے ہوتو قانونا جرم نہیں۔ہم جنس پرستی کے حق میں دہلی ہائی کورٹ اپنا فیصلہ پہلے ہی دے چکی ہے، اب اِسی مقدمے کی قانونی بحث میں سپریم کورٹ کے دو ججوں کی یہ نصیحتیں جو انھوں نے ہم جنس پرستی کے مخالفوں کو کی ہیں، سنئے مگر دل تھام کر آپ آخر کس بنیاد پر کہتے ہیں کہ یہ غیرفطری ہے…….واقعہ یہ ہے کہ ء سے پہلے یہ کوئی جرم نہیں تھا……اب وقت بدل گیا ہے اور آپ لوگ بھی جدید دور کی سماجی تبدیلیوں کو سمجھیں اور وقت کے ساتھ چلیں……. قانون کی دفعہ کو بھی اب نئی سوچ کے مطابق دیکھا جانا چاہئے….۔ ایشین ایج / فروری نیز اپنی سوچ کا دائرہ وسیع کیجئے، اسے محض نفسانی خواہش کا عمل نہ سمجھے، …….ہم جنس پرستی کو بدلتے ہوئے سماجی تصورات کے تناظر میں دیکھا جائے……. جو اعمال پہلے ناقابلِ قبول تھے، وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ قابل قبول ہوتے جارہے ہیں…….۔ اسٹیٹس مین / فروری……..اب ان حلقوں کو، جو اِس حیوانی عمل سے متنفر ہیں، بہت سوچ سمجھ کر اپنا آئندہ لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا۔پ ر
—
Talha