کلام : ڈاکٹر شہلا گوندل
آج خود کو آئینے میں دیکھا،
وحشت زدہ آنکھوں میں
ادھورے خوابوں کی کرچیاں،
نا آسودہ جذبے،
نارسائی کے نادیدہ دکھ۔
صبر کے بندھن اب ٹوٹنے لگے ہیں،
لمحے مٹھی سے ریت کی طرح پھسل رہے ہیں۔
مر مر کے جینے کی کوشش میں،
زندگی کی سانسیں تھمنے لگی ہیں۔
جی چاہا،
ٹوٹ کے دھاڑیں مار کر روؤں،
ایسا رونا جو طوفانِ نوح لے آئے،
جو ہر محرومی، ہر آزردگی،
ہر نا آسودگی کو بہا لے جائے۔
لیکن جب رونے بیٹھی،
آنکھوں کے آنسو خشک ہو گئے،
حلق میں آواز اٹک گئی۔
یہ دکھ، رونے کا نہیں ہے،
نہ کسی کے ساتھ کے انتظار کا۔
نہ ہمدردی کی خواہش،
نہ دلجوئی کی ضرورت۔
دکھ تو یہ ہے کہ
کوئی سمجھے ہی نہ!
کوئی سنے ہی نہ!
کوئی جانے ہی نہ،
کہ اندر کا انسان بات کرنے کو ترس رہا ہے۔
اور زبان خاموش،
الفاظ بے صدا۔
اور تو اور،
آئینہ بھی گلابی گالوں،
لپ اسٹک زدہ ہونٹوں کو دکھاتا ہے،
لیکن ان آنکھوں کی وحشت؟
وہ خود کو بھی نظر نہیں آتی۔
اور یوں،
خوشی کی خود فریبی
مقدر ٹھہرتی ہے،
اور وحشت آئینے کے پار کہیں
چھپ جاتی ہے‼️