آئیڈیل الیکشن



کالم نگار زیب مشہود
درامن
واقعی یہ سچ ہے کہ موسموں اور آب و ہوا کے اثرات ہر جاندار پر ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ گرم ممالک کے نباتات سے لے کر حیوانات تک کے رنگ ،مزاج رہن سہن سرد ملکوں کے رہنے والوں سے بہت مختلف ہوتے ہیں۔اور کسی بھی قوم یا ملک کامزاج وہاں کے اہم ترین ایونٹس ( events)کے دورا ن بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔جس میں الیکشن بھی ایک اہم بنیادی موقع ہوتا ہے۔جس میں لوگ اپنی تقدیر کی سمت کا خود تعین کرتے ہیں۔
نو ستمبر کے روز ناروے میں باقائدہ الیکشن کا دن شروع ہوا۔جبکہ اسکا سلسلہ کئی روز پیشتر شروع ہو چکا تھا۔جبکہ اس سے اگلے تین روز تک الیکشن کی آخری معیاد تھی۔ جس میں ناروے کے عوام نے اپنے ووٹ کو کاسٹ کر کے اپنے لیے حکمران کے انتخاب کا فیصلہ کرنا تھا۔ ناروے میں چو نکہ خواندگی سو فیصد ہے یہی وجہ ہے کہ ہر شخص کو نہ صرف ووٹ کی اہمیت کا بلکہ اپنے اس حق کو استعمال کرنے کا بھرپور شعور بھی ہے۔انتخابات شروع ہونے کے کئی روز بعد تک بھی ملک میں کوئی افرا تفری نظر نہیں آتی۔لوگ قطاروں میں انتہائی صبر و سکون سے اپنی باری کا انتظار کرتے رہے ہیں۔اور دلچسپ بات یہ ہے کہ نارویجن آخری وقت تک کسی کو یہ بات بتانا پسند نہیں کرتے کہ وہ کس کو ووٹ ڈال رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ایک ہی قطار میں محمود و ایاز کھڑے ہو کر اپنی پارٹی کو ووٹ کا حصہ ڈالتے چلے جاتے ہیں۔
ناروے پر بھی بادشاہت کا لیبل لگا ہوا ہے مگر یہ بھی برطانیہ کی طرح علامتی ہے۔یہاں بھی آئین کے مطابق مکمل جمہوری عمل ہوتا ہے۔ناروے کا آئین بہت خاص ہے وہ یوں کہ یہ دنیا کا دوسرا سب سے پرانا جمہوری اور لبرل آئین ہے۔یہ یورپ کا پہلا تحریری آئین ہے ۔اس آئین کو امریکہ اور فرانس کے انقلاب سے متاثر ہو کر لکھا گیا۔اس کو باقائدہ 1814 میں سترہ مئی کو منظور کیا گیا تھا ۔تب سے اب تک نارویجن قوم سترہ مئی کو قومی دن کے طور پر مناتی ہے۔اس لحاظ سے یہ لوگ مبارکباد کے مستحق ہیں کہ آئین کے دیے ہوئے
حقوق سے بھرپور طور پر مستفید ہوتے ہیں۔کیونکہ یہ اپنے آئین پر عمل کرنے اور کرانے کا شعور رکھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پچھلے الیکشن میں اسی فیصد ووٹ کاسٹ ہوئے۔
ناروے میں دو بڑے الیکشن ہوتے ہیں ایک پارلیمنٹ کے اور دوسرے بلدیاتی دونوں پارٹی کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔بلدیاتی الیکشن ایک سال پہلے ہوتے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت چاہے جس کی بھی ہو بلدیاتی الیکشن میں جس پارٹی کا امید وار جیتتا ہے وہی مئیر بنتا ہے۔ایک مئیر اپنے شہر کا سب سے با اختیار ہی نہیں ذمہ دار شخص بھی ہوتا ہے۔اور اس کی کارکردگی پارٹی کی پوزیشن پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہے۔مثلاً اگر مئیر اچھی کارکردگی دکھاتا ہے تو ووٹر پارلیمانی انتخابات میں اسے ہی ووٹ دے سکتے ہیں۔
ناروے کی پارلیمنٹ کو نارویجن زبان میں استور تھنگ(Storting) کہتے ہیں۔جس میں کل ایک سو انہتر (169) سیٹیں ہیں جس میں سات پارٹیاں حصہ لیتی رہی ہیں۔ان میں سے تین بڑی پارٹیاں ہیں ۔پچھلے آٹھ برس سے تین مخلوط پارٹیاں مل کر حکومت کر رہی تھیں یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کبھی بھی کسی پارٹی کو اکثریت نہیں مل پائی۔شائید اسکی وجہ ہمارے ہاں کی بھیڑ چال جیسی نہیں کیونکہ ہمارے ملک میں الیکشن نہیں بلکہ سلیکشن ہوتا ہے۔وہ بھی ملک کے اندر سے نہیں بلکہ باہر سے وہ بھی سات سمندر پار سے ۔خیر بات ہو رہی تھی نارویجن پولیٹیکل پارٹیوں کی ۔ناروے کی سب سے مقبول پارٹی آربائید پارٹی یعنی لیبر پارٹی ہے۔جس نے پچھلے الیکشن میں 35.37 ووٹ لیے۔اسکی مقبولیت کی وجہ اسکا منشور ہے جو کہ ایک مکمل فلاحی مملکت کا عزم دیتا ہے ۔اس میں ناروے کے ہر شہری کو برابر کی سہولیات تک رسائی حاصل ہے۔خصوصاً غریب طبقہ اور تارکین وطن کو۔دوسرے نمبر پر FRP ( Fremskritt party )۔جس نے ملک بھر سے ووٹ حاصل کیے۔یہ پارٹی تارکین وطن کے سخت خلاف ہے۔
اسکی لیڈر سیو SIVکو تو تارکین وطن سے بیر ہے ۔ اور وہ اس کے اظہار میں کبھی بخل سے کام نہیں لیتی۔اس پارٹی میں پرائیویٹائیزیشن فوبیا بھی ہے۔کہ جس سے ہمارے ملکوں کی طرح امیر لوگ امیر ترین اور غریب لوگ غریب ترین ہو جائیں۔حیرت ہے کہ عمومی طور پر ایک نارویجن کا مزاج بڑا ہمدردانہ لگتا ہے۔اس پارٹی کا اتنے زیادہ ووٹوں سے جیتنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جو دکھتا ہے اصل میں وہ ایسا ہوتا نہیں۔
تیسرے نمبر پر دائیں بازو کی پارٹی (Høyre ) ہے جسے 2009 میں 17.8 % ووٹ ملے۔اسکا منشور بھی پرائیویٹا ئیزیشن پر زور دیتا ہے۔ لیکن یہ پھر بھی فریمسکرت FRP Fremskritt) پارٹی کی طرح تارکین وطن کی مخالف نہیں۔لیکن ایک بات واضع ہے کہ اگر ناروے میں ہر محکمہ مثلاً تعلیم اور صحت سے متعلق ادارے پرائیویٹ کر دیے جائیں تو تارکین وطن تو کیا خود نارویجن عوام کا غریب طبقہ بھی مسائل کا شکار ہو جائے گا۔اسی لے لیبر پارٹی کواپنے انسان دوست منشور کی وجہ سے ہمیشہ کامیابی ملتی رہی ہے اور ہمیشہ ملتی ہی رہے گی۔کیونکہ یہ عوام کی ایک مقبول پارٹی ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں