[12:05, 14.6.2024]
FarahTayeb:
گلیوں بازاروں میں خوبصورت جانوروں کی قطاریں لگ چکی ہیں۔ ہر گھر کا فرد اپنے قربانی کے جانور کی خدمت میں لگا ہوا ہے۔ خود گرمی سہ کر، انکی چھاؤں کا انتظام کر رہا ہے۔ اپنی پیاس سے پہلے، ان کی پیاس بجھانے کو کوشاں ہے۔ بچے صبح شام ان کے اردگرد پھدکتے رہتے ہیں۔ فضا میں قہقہوں اور آوازوں کا شور رہتا ہے۔
دوسری جانب، حجاج احرام باندھے نکل پڑھے ہیں۔ اور ابراہیم(علیہ السلام ) کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے، گروہ در گروہ، ایک ایک کر کے، ابراہیم اور ان کے آل کے افعال دہرانے کا عظم کر چکے ہیں ۔ انہی کی پیروی میں طواف، انہی کے انداز میں سعی، انہیں کے عزم کے ساتھ قربانی اور انہیں کے جزبہ کے ساتھ شیطان کو کنکر مارنے کی نیت باندھ چکے ہیں
گویا اس مقدس مہینے کے عظیم دنوں کا ہر خاص عمل ابراہیم علیہ السلام سے وابستہ ہے۔
ہم ہر سال قربانی تو بہت شوق اور تیاری سے کرتے ہیں اور حجاج کو ڈھیروں دعاؤں کے ساتھ رخصت بھی کرتے ہیں، لیکن کیا ہم نے ان اعمال کو رسم اور تہذیب سے بڑھ کر کبھی جانا؟ کیا آپ جانتے ہیں ابراہیم علیہ السلام کون تھے؟
اور آج کے جدید دور میں، 4 ہزار سال پرانی سنتوں کو دوہرا کر، ہمیں کیا ملے گا؟
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
إِنَّ إِبْرَٰهِيمَ كَانَ أُمَّةًۭ “بیشک ابراہیم ایک پوری امت تھے”
اور ہمیں حکم دیا: ٱتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَٰهِيمَ حَنِيفًۭا
“ابراہیم کے راستے کی پیروی کرو جو ایک سیدھا راستہ تھا”۔
اللہ انکے خلوص اور ایمان کی تعریف میں کہتے ہیں کہ بھلا اس سے بہتر کون ہو سکتا ہے جو ابراہیم کے راستے پر چلے۔ وہ ابراہیم
وَٱتَّخَذَ ٱللَّهُ إِبْرَٰهِيمَ خَلِيلًۭا
جنہیں اللہ نے اپنا دوست بنایا۔
سوچیے تو سہی! کیا یہ ایک معمولی بات ہے؟ تمام جہانوں کے رب، بادشاہوں کے بادشاہ، زمین اور آسمان کے مالک کی، ایک کمزور بنائے گئے محتاج انسان سے دوستی؟
کوئ عجب نہیں کےایسی دوستی کے بدلے، ان کی نسلوں میں نبیوں کی لڑیاں پرو دی گئیں۔ اسی دوستی کے نتیجے میں، قیامت تک، ان کی ذات نہ صرف مسلمانوں کے، بلکہ تمام اہل کتاب کے ایمان کا حصہ بنی۔ ان کی اور ان کے اہل خانہ کی سعی کو ہر مومن کے لیے ایک مستقل عمل بنا دیا گیا۔ ان کی پکار کو دنیا کے ہر کونے تک پہنچا دیا گیا۔ جہاں انکے قدم ٹھرے، اس جگہ کو سجدے کا مقام مقرر کر دیا۔ اور جس شہر کے لیے ان کے ہاتھ اٹھے، اسے دنیا کا محور بنا دیا۔
یہ مقام اور رتبہ ابراہیم علیہ السلام نے کیسے پایا؟ اللہ کی دوستی انہوں نے کیسے حاصل کی؟
جوانی میں پورے معاشرے کے خلاف تنہا کھڑے ہوئے، باپ کی ڈانٹ اور سختی سہی، دہکتی آگ میں پھینکے گئے، بے گھر کیے گئے،بانجھ پن سے آزمائے گئے۔ جب اولاد ملی تو اسے خود صحرا میں تنہا چھوڑ آئے۔ اولاد جوان ہوئی تو اسے اپنے ہی ہاتھوں سے ذبح کرنے چل پڑے۔ گویا، زندگی کے ہر مرحلے میں، اپنی عزیز ترین چیز قربان کرتے چلے گئے۔
اور جب ان کا سینہ فقط حب الٰہی سے منور ہو گیا، اور دنیا اور اس کی رنگینیوں کی غلامی سے مکمل طور پر آزاد ہو گیا۔ تب اللہ نے انہیں چن لیا، اپنا دوست بنا لیا، اور ان کے نام کو سربلند کر دیا۔
عید الاضحیٰ پر کی جانے والی قربانی اور حج کے اکثر ارکان، سنت ابراہیمی ہیں۔ حقیقتاً، یہ مواقع اللہ کی طرف سے دوستی کے لیے بڑھتا ہوا ہاتھ ہیں ۔ یہ آپ کے خلوص و محبت کا امتحان ہیں ۔ اپنا جائزہ لیں، کیا ہم زندگی کے ہر پہلو میں اللہ کی رضا کے مطیع ہیں؟ کیا ہم میں اپنی خواہشات اور ضروریات کو اللہ کی خوشی کے لئے قربان کرنے کی ہمت ہے؟ کیا ہم اپنے کیے ہوے عہد سے وفادار ہیں؟
اللہ تعالیٰ ہمیں یاد دلاتے ہیں:
“لَن يَنَالَ ٱللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَآؤُهَا”
(ان قربانی کے جانوروں کا گوشت اور ان کا خون اللہ کو نہیں پہنچتا)
جب نہ گوشت اور نہ خون اللہ کو پہنچتا ہے، تو آخر ہماری قربانی کی کیا اہمیت ہے؟ اللہ خود ہی اس کا جواب دیتے ہیں:
“يَنَالُهُ ٱلتَّقْوَىٰ مِنكُمْ”
(اللہ کو تمہاری طرف سے صرف تقویٰ پہنچتا ہے)
قربانی کا اصل مقصد ہمیں اپنے دلوں میں اخلاص، وفاداری، اور تقویٰ پیدا کرنے کی ترغیب دینا ہے۔ اس کا مقصد، ہمیں یاد دلانا ہے کہ دنیا کی ہر چیز عارضی ہے اور حقیقی محبت اور وابستگی صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہونی چاہئے۔
اس عید ہمیں قربانی دینی ہے، مگر صرف جانوروں کی نہیں، بلکہ اپنی پسندیدہ چیزوں کی، اپنے مال کی، اپنے وقت کی، اور اپنی محبتوں کی۔ ہمیں اللہ کی طرف سے آئی ہوئی دوستی کی دعوت کو قبول کرنا ہے۔
آئیے، اپنے غصے اور نفرتوں کو قربان کرتے ہیں۔ اپنی انا، اپنی ذات، اپنے نفس کو قربان کرتے ہیں۔ آئیے، اللہ کی خاطر، حضرت ابراہیم کی طرح، جو چیز بھی اللہ اور ہمارے درمیان فاصلہ بنے کھڑی ہے، اسے قربان کرتے ہیں۔ چاہے وہ جوانی کی طاقت ہو، یا اپنے بڑھاپے کا سہارا، ہماری خواہشات ہوں، یا اس دنیا کی آسائشیں، گھر بار ہو، یا مرتبہ اور مقام۔
آگ ہے، اولاد ابراہیم ہے، نمرود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے؟
آئیے ، ابراہیم کے راستے پر چلتے ہیں۔
آئیے، اللہ سے دوستی کرتے ہیں۔
– بنت طیب