از ڈاکٹر جاوید جمیل
کیا نگاہوں نے کوئی خواب سجایا نہ کبھی
کیا کسی کو بھی قریب اپنے بلایا نہ کبھی
آتے رہنے کے لئے شکریہ اے یاد کے دوست
میں ہی مجرم ہوں تری یاد میں آیا نہ کبھی
اسکی البم میں تو تصویر مری ہے موجود
اس نے تصویر کو سینے سے لگایا نہ کبھی
میں تجھے کیسے بتا دیتا دل_ناز کا حال
حال_دل میں نے تو خود کو بھی بتایا نہ کبھی
دل چرا کر مرا کہتا ہے مجھے چور یہ اب
خود ہی چوری ہوا، اس نے تو چرایا نہ کبھی
قہقہے آوروں کی خوشیوں میں رہے ہیں شامل
میرے حالات نے خود مجھکو ہنسایا نہ کبھی
میں نے اوروں سے سنا ہے کہ نسیم آتی ہے
کیوں مجھے وقت_سحر اس نے جگایا نہ کبھی
تیری جاوید یہ عادت ہے خدا کو بھی پسند
تو نے نظروں سے کسی کو بھی گرایا نہ کبھی
—